راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ


 راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ

( از : طفیل احمد مصباحی ) 

 یہ خطہ اب بھی بازارِ خُتن ہے با کمالوں سے
غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے

عظیم آباد ( پٹنہ ) کی علمی و ادبی اور روحانی عظمت کل بھی مسلم تھی اور آج بھی مسلم ہے ۔ ملک کے دیگر دبستانوں کی طرح دبستانِ عظیم آباد بھی عظیم ہستیوں ، باکمالوں اور قابلِ رشک افراد کی آماج گاہ رہا ہے ۔ اس کی علمی عظمت اور ادبی مرکزیت اس کے عظیم کارناموں سے ظاہر ہے ۔ الطاف حسین حالؔی جس وقت " مقدمۂ شعر و شاعری " لکھ کر اردو میں جدید تنقید کی بنیاد رکھ رہے تھے ، ٹھیک اسی زمانے میں عظیم آباد کے نامور سپوت امداد امام اثرؔ " کاشف الحقائق " لکھ کر اردو داں طبقے کو مغربی طرزِ تنقید سے روشناس کرا رہے تھے ۔ غرض کہ اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام اور ٹھوس علمی خدمات کے حوالے سے صوبۂ بہار کی تاریخ بڑی روشن اور تابناک رہی ہے ۔ علم و حکمت ، تہذیب و ثقافت ، صنعت و حرفت اور سیاست و صحافت کے میدان میں بہار اور فرزندانِ بہار کو بہت ساری امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ۔ دینی علوم اور شعری اصناف سے قطعِ نظر اردو نثر کی خدمت کے حوالے سے بھی اس خطے کے کارنامے قابلِ قدر ہیں ۔ شعرائے اردو کا اولین تذکرہ اسی بہار میں لکھا گیا ۔ رحمت علی عشقی نے ۱۱۱۵ ھ میں " تذکرۂ عشقی " نامی کتاب تصنیف کی ۔ اس میں تقریباً ساڑھے چار سو شعرائے اردو کے تذکرے موجود ہیں ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اردو شعرا کا سب سے پہلا تذکرہ یہی ہے ۔ اسی طرح میر غلام حسین سوزشؔ اور جوششؔ عظیم آبادی ( میر تقی میر کے ہم عصر ) نے بھی تذکرے لکھے ۔ نواب علی ابراہیم خاں نے " تذکرہ گلزارِ ابراہیم " لکھا ، جو مرزا علی لطف کی مشہور تالیف " تذکرۂ گلشنِ ہند " کا ماخذ ہے ۔ اردو کی پہلی خاتون ناول نگار اور پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ اسی خطۂ بہار سے تعلق رکھتی ہیں ۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ اختر اورینوی کی تحقیقی کتاب " بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا " کا مطالعہ کریں ، بہت سارے تاریخی حقائق بے نقاب ہوں گے اور بہار کے اربابِ فضل و کمال کے ہمہ جہت کارناموں سے واقفیت حاصل ہوگی ۔

اردو زبان و ادب کی خدمت و اشاعت میں مرد حضرات کے علاوہ عورتوں نے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں اور یہ ایک ایسی تاریخی سچائی ہے جو کسی دلیل کی محتاج نہیں ۔ بہار کے اصحابِ فضل و کمال اور مایۂ ناز ادبا و شعرا کے ہجوم میں یہاں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں خواتین ایسی ملیں گی ، جن کی علمی و ادبی خدمات سے اردو ادب کے وقیع سرمایے میں اضافہ ہوا ۔ اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدۃ النساء صاحبہ ہیں جو پٹنہ کی رہنے والی تھیں ۔ انہوں نے ۱۸۸۱ ء میں " اصلاح النساء " کے نام سے ناول لکھا جو ۱۸۹۴ ء میں ان کے صاحب زادے کی کوشش سے پہلی بار منظر عام آیا ۔ اردو کے مایۂ ناز محقق و ناقد اور افسانہ نگار اختر اورینوی کی اہلیہ شکیلہ اختر کو بہار کی پہلی خاتون افسانہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کے علاوہ نسیمہ سوز ، رضیہ رعنا ، اعجاز شاہین ، ذکیہ مشہدی ، شمیم افزا قمر ، شمیم صادقہ ، نعیمہ قمر ، عصمت آرا ، امتیاز فاطمی ، نصرت آرا ، تسنیم کوثر ، نزہت نوری ، صبوحی طارق ، زینب نقوی وغیرہ ۔ صوبۂ بہار کی وہ نامور خواتین ہیں ، جنہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے کر اردو زبان و ادب کی ترویج و توسیع میں پیش پیش رہیں ۔ شعر گوئی کے حوالے سے بہار میں سب سے پہلے جس معزز خاتون کا نام آتا ہے ، وہ حضرت بی بی ولؔیہ ہیں ، جو امجھر شریف ( گیا ) کی مخدوم زادیوں میں سے تھیں اور حضرت شاہ محمد مخدوم قادری علیہ الرحمہ کی اہلیہ تھیں ۔ بی بی کا زمانہ کم و بیش وہی ہے جو عبد القادر بیدلؔ عظیم آبادی کا ہے ۔ بیدلؔ عظیم آبادی ، ولؔی دکنی کے ہم عصر تھے ۔ اس جہت سے ولؔیہ ، ولؔی دکنی کی ہم عصر ہوئیں ۔ ولؔیہ کے بعد نام ور خاتون شاعرہ میں بی بی محمودؔہ خاتون ( علامہ قتیل دانا پوری کی اہلیہ اور پروفیسر طلحہ رضوی برقؔ کی والدہ ) کا نام آتا ہے ۔ ان کے علاوہ صالؔحہ خاتون عظیم آبادی ، امیر بیگم ، بلقیس خانم ، امیر النساء غریبؔ ، بندی جان نازؔ ، کنیز فاطمہ گیاوی ، عائشہ بیگم وفاؔ سہسرامی ، حمیدہ بانو گیاوی ، عشرت جہاں رانچوی ، شمیم آرا عظیم آبادی ، نکہتؔ بھاگل پوری ، ولایتی بیگم یکتاؔ ، مغفورہؔ بھاگل پوری ، شکیلہ اختر ارولی ، عائشہ شمیمہ ، رضیہ رعناؔ ، زبیدہ خاتون زارؔی ، نینا جوگنؔ ، بی بی روشنؔ اور کہکشاں تبسم بھاگل پوری وغیرہ شعر و ادب کے آسمان کے ماہ و نجوم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

راضیہ خاتون جمیلؔہ مرحومہ ( متوفیٰ : ۱۸۲۱ ء ) بہار کے سلسلۂ شعر و سخن کی ایک مضبوط اور زریں کڑی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ جمیلؔہ ایک شریف اور معزز خاندان کی تعلیم یافتہ ، نیک سیرت اور پاک باز خاتون تھیں ۔ گھر کے دینی و علمی ماحول اور اعلیٰ تعلیم و تربیت نے جمیلؔہ کی مذہبی زندگی کو قابلِ رشک بنا دیا تھا ۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے وہ شروع سے دینی اقدار و روایات کی حامل اور مذہبی تعلیمات کی پاس دار تھیں ۔ شعری و ادبی مہارت و لیاقت کے ساتھ ان کی مذہبی زندگی بھی قابلِ رشک تھی ۔ جمیلؔہ صوم و صلوٰۃ کی پابند ، صابرہ و شاکرہ ، تصوف آشنا ، بزرگانِ دین کی عقیدت مند ، اوراد و وظائف کی پابند اور سال کا بیشتر حصہ روزے میں گزارنے والی ایک بے مثال خاتون تھیں ۔ اکثر اوقات ذکر و اذکار اور تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتیں ۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کا وصال ہوا ۔ جمیلؔہ کی زندگی کے کچھ اہم گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فصیح الدین بلخی لکھتے ہیں : 

جمیلؔہ نے گھر ہی میں اردو ، فارسی اور دینیات کی تعلیم پائی ۔ شادی ہونے کے بعد ۱۸۹۷ ء تک شوہر کے ساتھ حیدر آباد میں رہیں ، جہاں وہ عدالتِ عالیہ کے جج تھے ۔ ملکۂ شاعری فطری تھا ۔ ابتدا میں راضؔیہ اور کبھی خاتونؔ تخلص کرتی تھیں ......... عمر کا بیشتر حصہ عبادت و ریاضت میں بسر کرتی تھیں اور صوفیوں سے خاص اعتقاد رکھتی تھیں جو ان کے کلام سے بھی ظاہر ہے ۔ قریب قریب تمام سال روزہ رکھتی تھیں اور ذکرِ الہٰی کی حالت میں ۱۹۲۱ ء میں رحلت کی ۔ پُر گوئی اور قادر الکلامی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سات دیوان مرتب کر کے یادگار چھوڑا ۔ راقم نے خدا بخش لائبریری میں خود ہر ایک دیوان کو دیکھا ہے ۔ شاعرات کا کیا ذکر ، شاعروں میں بھی کم ایسے ہیں جن کے کلام کی مقدار اس حد تک پہنچی ہو ۔

( تذکرہ نسوانِ ہند ، ص : ۱۳۰ ، مطبوعہ : شمسی پریس ، پٹنہ )

جمیلؔہ کی پیدائش ۱۸۶۱ ء میں کلکتہ میں ہوئی اور ۱۹۲۱ ء کو پٹنہ میں انتقال کیا ۔ آپ خان بہادر شمس العلماء مولوی کبیر الدین احمد کی صاحب زادی اور خدا بخش لائبریری ( پٹنہ ) کے بانی مولوی خدا بخش مرحوم کی اہلیہ تھیں ۔ آٹھ شعری دیوان تصنیف کرنے والی جمیلؔہ اپنے وقت کی لائقِ رشک خاتون تھیں ۔ جمیلؔہ شروع میں راضؔیہ اور خاتؔون تخلص کرتی تھیں ، لیکن بعد میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ مرشد علی جمالؔ قادری علیہ الرحمہ کی اجازت سے اپنا تخلص جمیلؔہ کر لیا اور اس طرح ان کا پورا نام راضیہ خاتون جمیلؔہ ہو گیا ۔ شوہر مولوی خدا بخش مرحوم کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان کو " جمیلؔہ خدا بخش " بھی کہا جاتا ہے ۔ ممکن ہے یہی ان کا ادبی نام رہا ہو ۔ سن ۲۰۰۰ ء کے بعد سے ان کے دواوین کی اشاعت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، اس میں مصنف اور شاعرہ کی حیثیت سے " جمیلؔہ خدا بخش " ہی لکھا ہوا ہے ۔ بہر کیف ! ذیل کے اشعار میں جمیلؔہ نے اپنے تینوں تخلص ( راضیہ ، جمیلہ ، خاتون ) کا استعمال کیا : 

راضؔیہ کس کو ضرورت ہے بھلا جنت کی 
شہرِ بغداد ہے فردوس سے کیا کم تجھ کو 

کبر و نخوت سے جمیلؔہ مجھے کیا کام رہا 
سارے مخلوق سے جب اپنے کو کمتر جانا

نہ رو اب تو خاتونؔ یہ غل مچا کر 
 کہ بلبل کا بھی چین جاتا رہے گا

 راضیہ خاتون جمیلؔہ شادؔ عظیم آبادی اور داغؔ دہلوی کی قابلِ فخر شاگردہ تھیں ، لیکن سب سے زیادہ اکتسابِ فیض شادؔ عظیم آبادی سے کیا تھا ۔ جمیلؔہ کو دبستانِ عظیم آباد کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ راقم کے ناقص خیال کے مطابق اردو شاعری میں مقدار و کمیت کے لحاظ سے جمیلؔہ سے بڑھ کر کوئی شاعرہ نہیں گذری ہے اور جہاں تک کیفیت کی بات ہے تو اس میں بھی جمیلؔہ کسی سے کم نہیں تھیں ۔ ان کی شاعری کلاسیکی روایت کی آئینہ دار ، فکری عناصر سے مملو ، تصوف کی جلوؤں سے آراستہ اور عشق و وارفتگی کی اعلیٰ مثال ہے ۔ وہ ایک قادر الکلام ، زود گو اور مختلف اصناف پر قدرت رکھنے والی ایک عظیم شاعرہ تھیں ۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی ۔ ان کی قادر الکلامی اور زود گوئی مسلم ہے ۔ وہ ایسی قادر الکلام شاعرہ تھیں کہ آٹھ شعری دیوان اور دو مجموعۂ مثنوی اردو ادب کے حوالے کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا ۔ شفیع مشہدی لکھتے ہیں :
 

فخرِ عظیم آباد ، حضرت شادؔ عظیم آبادی کی شاگردہ جمیلؔہ خدا بخش نے اس قدر ضخیم سرمایۂ شاعری چھوڑا ہے ، جس کی مثال کسی دوسری شاعرہ کے یہاں نہیں ملتی ۔ یہ امتیاز جمیلؔہ کو ہی حاصل ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سو سال سے بھی زائد پہلے کی شاعری ہے ، لہٰذا اس کا رنگ بھی اپنے عہد کا غماز ہے ۔ کلاسیکی روایت اور غزل کی نزاکتوں سے مزین یہ شاعری اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے ۔ حسن و عشق ، شیخ و برہمن ، حرم و صنم خانہ اور زلف و گیسو کے تذکروں سے بھری جمیلؔہ کی شاعری بیحد دلچسپ ہے ، مگر فکری عنصر کی بھی کمی نہیں ہے ۔ تصوف کے اثرات سے مزین ان کا کلام بے حد اہم ہے ۔ اردو شاعری میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی دونوں ہی محبوب مضمون رہے ہیں ۔ جمیلؔہ کے عشقِ حقیقی ہی کارفرما ہے ۔ 

( دیباچہ دیوانِ جمیلہ ، جلد ہفتم ، ص : ۵ ، ناشر : خدا بخش لائبریری ، پٹنہ )

جمیلؔہ کی کامیاب شاعری اور قادر الکلامی دیکھ کر خواص و عوام رشک کرتے تھے ۔ ان کے آٹھ ضخیم شعری دواوین ان کی شاعرانہ مہارت و بصیرت کے گواہ ہیں ۔ بلند فکر و تخیل ، معنیٰ آفرینی ، رنگِ تغزل ، جذبات کی شدت ، وجد آفریں نسوانی لہجہ ، تشبیہات و استعارات کا بر محل استعمال ، محاورات کی چاشنی اور نکھرا اسلوبِ بیان ان کی شاعری کو مقامِ اعزاز و اعتبار بخشتا ہے ۔ ان کے کلام میں وہ سارے محاسن موجود ہیں ، جو ایک کامیاب شاعری کا لازمہ ہیں ۔ جمیلؔہ اپنے کلام میں غزل کی سادہ و سلیس اور پُر لطف زبان استعمال کرتی ہیں ، جس سے ان کی شعری لیاقت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ تغزل کے ساتھ فطری بہاؤ ، آمد ، رعنائیِ خیال اور طرزِ بیان کی موزونیت ملاحظہ کریں : 

کبھی دامانِ تر دیکھا ، کبھی تر آستیں دیکھی
کبھی ان اشکِ چشمِ تر سے ہم نے تر زمیں دیکھی

 نہیں تھا گر تصور یار کا اے دل تو پھر کیا تھا 
 ہوئی تصویر کیسے آہِ آتش بار سے پیدا

رہی آج تک جسے بے کلی کسی دم نہیں جسے کل ملی 
وہ تمہارا عاشقِ زار تھا ، جسے غم نے پارہ بنا دیا 

نہ انیس ہے ، نہ جلیس ہے کہوں کس سے اپنا میں حالِ دل 
 وہی آہ ! اپنے عزیز تھے جو لحد میں مجھ کو سلا گئے

اے عشق کیا کروں میں شکوہ کسی سے جا کر 
 روزِ ازل دیا تھا دلِ داغ دار تو نے

جمیلؔہ کو خود اپنی شاعری پر ناز تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرانہ تعلّی کے نمونے ان کے کلام میں بکثرت ملتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیے : 

ہوش گم ہیں شاعروں کے دیکھ کر غزلیں مری 
کھُل رہے ہیں علم کے کیا خوب دفتر آج کل

لفظ ہر بیت کے ہیں سلکِ گُہر کے موتی 
دیکھیے میرے قلم کی گہر افشانی کو

جمیلؔہ کو مختلف شعری اصناف پر قدرت حاصل تھی ۔ نعت ، منقبت ، غزل ، قصیدہ ، مثنوی اور رباعی وغیرہ صنفوں میں انہوں نے کثرت سے کلام لکھے ہیں ۔ تقریباً پچیس ہزار اشعار نظم کرنے والی جمیلؔہ کے کلام میں آٹھ دس ہزار اشعار ایسے ضرور نکلیں گے ، جن کو " منتخب اشعار " کے زمرے میں رکھا جا سکے اور ان کی روشنی میں جمیلؔہ کو کامیاب شعرا کی فہرست میں جگہ دی جا سکے ۔ راقم کا مقصد جمیلؔہ کے فکر و فن کا تجزیہ نہیں ، بلکہ ایک عظیم شاعرہ کی حیثیت سے ان کا تعارف ہے ۔ ان کے چند منتخب اشعار دیکھیں اور ان کی پُر وقار اور معنیٰ خیز شاعری کا اندازہ لگائیں :

ہتھیلی پر دلِ شیدا کو میرے دیکھ لو رکھ کر
 تڑپنا کیا کروگے دیکھ کر تم مرغِ بسمل کا 

جمیلؔہ ایک عالم غش کرے مجھ کو تیقن ہے
الٹ جائے جو برقع رخ سے میرے ماہِ کامل کا

جس کو قسمت نے کیا ہے ان کے گیسو کا اسیر
 ہو نہیں سکتا وہ قیدی پھر کسی زنجیر کا 

جل اٹھا دل شعلۂ فرقت سے تو اچھا ہوا 
خاک کا پتلا تھا پہلے اب ہوا اکسیر کا 

اے جمیلؔہ یوں تو ہے تقدیر اک سربستہ راز 
جب ہوئی تدبیر عقدہ کھل گیا تقدیر کا

ہے کون سے عیسیٰ کا گذر آج چمن میں 
نرگس جو عصا تھام کے اٹھتی نظر آئی 

 شرابِ شوق کے پینے کا بندوبست ہے یہ
صراحی دل کو کریں ، چشم کو سبو کر لیں

چکر میں رہا کرتے ہیں یوں شمس و قمر روز 
لیکن نہیں ہوتی شبِ ہجراں کی سحر روز 

 بیکار ہے جرّاح لگانا ترا مرہم
 دھوتا ہے مرا زخمِ جگر دیدۂ تر روز

قالب سے مری روح نکل جائے گی اک دن
 تڑپایا کرے گا جو مرا دردِ جگر روز

اب آخر میں جمیلؔہ کی کامیاب ، دل آویز اور فکر انگیز شاعری پر ڈاکٹر محمد شہاب الدین کا یہ تبصرہ نقل کر کے ہم اپنا مضمون ختم کرتے ہیں : 

جمیلؔہ کی شاعری میں سادگی و پرکاری بھی ہے اور حسن و دلکشی بھی ۔ اس کی خاص وجہ ایک تو خود ان کی درویشانہ زندگی تھی اور دوسرے اس عہد کی سادہ لوحی ۔ فکر و عمل اور احساس و شعور کے لحاظ سے جمیلؔہ اپنی قابلیت اور فہم و ادراک کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصر شعرا سے بھی بہت متاثر تھیں ۔ علاوہ ازیں ان کے سامنے میرؔ ، غالبؔ ، دردؔ ، سوداؔ ، راسخؔ و شادؔ کے کلام بھی موجود تھے ۔ جمیلؔہ کی غزلوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تغزل اور ترنم کا خاص خیال رکھتی تھیں یعنی شعریت اور موسیقیت کا اہتمام ان کا ذوقِ جمال از خود کرنے پر مجبور ہے ............. شاعری کے فن کے مطالبات پر جمیلؔہ کی گہری نظر تھی ۔ ان کے یہاں ناہمواری نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ فکر و خیال ، احساس و جذبہ اور اندازِ بیان کو حد درجہ موزونیت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملتی تھی ۔ جمیلؔہ اپنے اشعار میں حسین اور دلکش محاورے بھی استعمال کرتی ہیں ۔ ان کے برجستہ محاورے علامتی اور رمزی حسن و کیف کے حامل ہیں ۔ وہ ایک با شعور ، ہنر مند اور وجدانی احساس کی حامل شاعرہ تھیں ۔ ان کے محاورے ، شعر کی نزاکت ، برجستگی اور بے ساختگی کو مجروح نہیں کرتے ، بلکہ اس میں دل فریب اور سحر آگیں فضا قائم کرنے میں معاون ہوتے ہیں ۔ جمیلؔہ کے یہاں شاعرانہ تعلّی بھی پائی جاتی ہے ۔ ان کے دواوین میں ایسے اشعار کی بہتات ہے ، جن میں کچھ تو ان کے حسبِ حال ہیں اور کچھ میں مبالغہ آرائی اور کچھ میں ان کے تنقیدی شعور کی جھلک ملتی ہے ۔ جمیلؔہ خاتون کے کلام میں تصوف کے رموز کی جھلکیاں بھی موجود ہیں ۔ ان کے کلام میں سطحیت ، ابتذال اور سطحی خارجیت نہیں ملتی اور نہ ہی ان کے کلام میں ناہمواری ہے ۔ ان کے اشعار میں آفاقیت ، ابدیت اور دوامیت ہے ۔ ان خصوصیات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اشعار میں حرکت و عمل کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کی پاس داری بھی ہے ۔ 

( اردو شاعراتِ بہار اور ان کی شعری خدمات ، ص : ۱۱۵ ، ۱۱۶ )

Comments

Popular posts from this blog

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

رباعیاتِ شوقؔ نیموی ، ایک تعارفی جائزہ