facebook,com

عظمت رسو ل قر آن حکیم کے آئینے میں



قرآن اللہ کی کتاب ہے اوراس خاک دان گیتی کے ہر فرد کے لئے باعث رشدو ہدایت ہے۔ اس کتاب عظیم میں جہاں اللہ کی ذات و صفات ، اس کی سلطنت وقدرت، فرماں برداروں کے لئے مغفرت و جنت ، نافرمانوں کے لئے عقوبت بدو دوزخ نیزملائکہ، کتب سماوی، قیامت، جنت و جہنم ، پچھلی امتوں کے احوال و کوائف ، امرونہی کے احکامات کا ذکرہے وہیں اللہ جل شانہٗ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی وعزت و عظمت اورتعظیم و تکریم بجالانے کا ہم مسلمانوں سے خصوصی مطالبہ فرمایا اوررسول کی محبت کو عین ایمان قرار دیا ہے۔ ذیل کی سطروں کوپڑھیں اورقرآنی آیات کی      روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت کااندازہ لگائیں۔
رسول کی تعظیم و تکریم عبادات پر مقدم ہے:چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّراً وَّ نَذِیْرًا لِتُوْ مِنْوا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہٗ وَ تُوَقِّرُوْہٗ وَ تُسَبِّحُوہُْ بُکْرَۃً وَّ اَصِْیًلا (سورہ فتح پارہ۲۶آیت۸،۹)ترجمہ: اے محبوب ہم نے آپ کو شاہد بناکر بھیجا اوربشارت دینے والا اورڈر سنانے والا بناکر بھیجا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اوررسول کی تعظیم و توقیر کرو اورصبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔اس آیت مبارکہ میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ اوررسول پر ایمان لانے کے بعد فوراً ہی اس بات کامطالبہ کیاگیا ہے کہ رسول کی تعظیم و توقیر بجالاؤ۔ گویا کہ اللہ جل شانہ ٗ نے اپنے محبوب کو شاہد ،مبشر اورنذیر اسی لئے بناکر بھیجا ہے کہ لوگ ان کی تعظیم و توقیر بجالائیں۔تعظیم رسول کی بجاآوری کے بعدکہیں جاکر ایمان والوں سے تسبیح و تہلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یعنی نبی کی تعظیم کے بغیر رب کی تسبیح قابل قبول نہیں۔
رسول اورقرآن کی پیروی نجات کا ذریعہ ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ نبی کی تعظیم و توقیر بجالانے والوں کو یوں مژدہ سنارہاہے فَالَّذِیْنَ ٰامَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوْ النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ معَہَٗ اُوْلٰءِکَ ھمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (سورہ اعراف پارہ ۹آیت ۹) ترجمہ: تووہ جو نبی پر ایمان لائے آپ کی تعظیم کی اورآپ کی مدد کی اوراس نور کی پیروی کی جوآپ اپنے ساتھ لے کرآئے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد نبی کی تعظیم بجالانا۔ان کی حمایت کرنا اورقرآن کی پیروی کرنا ہی فلاح ونجات کی راہ ہے۔
رسول پرسبقت کرنے کی ممانعت: اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے نبی کی عظمتِ شان و رفعتِ مقام سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے یَاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لَا تُقَّدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُْوْلہِ وَ اتَّقُواْ اللّٰہَ اِنّٰ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (سورہ حجرات پارہ ۲۶ آیت ۱) ترجمہ:۔اے ایمان والو اللہ اوراس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اوراللہ سے ڈرو بیشک و ہ سنتا اورجانتا ہے۔
اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ بتایاگیا ہے کہ بعض صحابہ نے حضورکی نماز عید قرباں اداکرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی تھی۔ دوسری روایتوں میں ہے کہ بعض صحابہ نے رمضان کے روزوں سے پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کرلیاتھا تو آیت مبارکہ میں یہ بات بتائی گئی کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ پھر رسول پر سبقت کرنے کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود پر سبقت کرنے سے تعبیر فرمایا۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ صحابہ نے جوسبقت کی تھی وہ عبادت الہٰی میں کی تھی ۔ مگراللہ تعالیٰ نے امت کو نبی کی تعظیم و تکریم کا پاس و لحاظ رکھنے کا حکم فرماتے ہوئے فرمایا کہ جو عبادت نبی پر کسی بھی طرح سبقت کے ذریعہ کی جائے گی وہ ہماری بارگاہ میں قابل قبول نہیں ۔
رسول کی بے حرمتی اعمال کی بربادی کاسبب ہے: اللہ رب العزت ہم کلمہ خوانوں کو بارگاہ نبی کی تعظیم بجالانے کی تعلیم و تربیت فرماتے ہوئے یوں فرمارہا ہے۔
 یٰاَ یُھّاَلذِّینْ اَمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْا اَصْوْااَتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ الَّنبِّیْ وَلَا تَجَھَرُوْ الَہٗ بِالقْوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍْ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالَکُمْ وَاَنتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ۔ (سورہ حجرات پارہ ۲۶آیت ۲) ترجمہ:۔ اے ایمان والو نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو، اورانہیں اس طرح نہ پکارو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو اوراگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے سارے اعمال برباد کردئیے جائیں گے اورتمہیں اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتائی ہے کہ حضورکی بارگاہ عظمت میں بلندآواز سے بات کرنا اورانہیں ان کے نام سے پکارنا جس طرح لوگ آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہیں حرام ہے۔پھر اللہ رب العزت نے ہمیں اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو نبی کی بارگاہ میں اس طرح کی جسارت کرے گااوران کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرے گا یا انہیں ان کانام لے کرپکارے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کے اعمال کو ضائع فرمادے گااور اسے احساس بھی نہ ہو گا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں معتوب ہوچکا ہے اوراس کی نیکیاں رائیگاں ہوچکی ہیں۔
جب یہ آیتِ نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ۔ ثابت بن قیس وہ صحابی ہیں جن کی قوت سماعت کچھ کمزور تھی اس وجہ سے وہ بلند آواز میں باتیں کرتے تھے۔ آیتِ مبارکہ میں چونکہ رسول کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے والے کواعمال کی بربادی کی وعید سنائی گئی تھی بایں وجہ انہوں نے مسجد آناجانا بند کردیا۔ ایک روز حضور نے سعد سے جو ثابت بن قیس کے پڑوسی تھے ان کی خیریت دریافت کی اور پوچھا میں ثابت کونماز میں نہیں دیکھ رہاہوں کیا بات ہے۔ حضرت سعد نماز کے بعد ثابت کے گھران کی خیریت دریافت کرنے کے لئے گئے اور ان سے مسجد نہ جانے کا سبب دریافت کیا اس پر حضرت ثابت رونے لگے اورکہا کہ میری ہی آواز حضور کی بارگاہ میں بلند ہوجایا کرتی تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت میری ہی مذمت میں نازل ہوئی ہے میں توجہنمی ہوگیا ہوں ۔ حضرت سعد نے ان کی زبانی جو باتیں سنیں انہیں حضور کی بارگاہ میں کہہ سنایا۔ اس پر حضور نے فرمایا ثابت سے کہہ دو کہ وہ جنتی ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حضرت ثابت کی قوت سماعت میں خلل واقع ہوچکا تھا ۔ اس وجہ سے وہ بلند آواز میں باتیں کیا کرتے تھے ۔ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ناپسند فرمایا۔ یہ اور بات ہے کہ جان ایمان مصطفےٰ جان رحمت صلی للہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرمادیا اوردلجوئی کرتے ہوئے جنت کی بشارت بھی عطافرمادی۔ بہرحال اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو حضور کی بارگاہ میں بلند آواز سے باتیں کرے گا اس کے اعمال برباد کردئیے جائیں گے اوروہ اللہ رب العزت کے قہر و غضب کاحق دار ٹھہرے گا۔
نماز جیسی اہم عبادت بھی رسول پرقربان کرنے کاحکم:نبی کی ذات رب کی بارگاہ میں کیامقام و مرتبہ رکھتی ہے اسے قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے بھی بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔ اللہ رب العزت کاارشاد ہے ۔ یَاَیّھُااَلَّذِیْنَ امَنُواْ اسْتَجِیْبُوْاِ للّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَادَعَاکُمْ۔ (سورہ انفال پارہ ۹ آیت ۲۴) ترجمہ:۔اے ایمان والو تم اللہ اوراس کے رسول کے بلانے پر فوراً حاضرہوجاؤ۔
ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھ رہے تھے حضور نے انہیںآواز دی مگر چونکہ یہ نماز میں تھے اس لئے نماز پوری کرکے حضور کی بارگاہ میں حاضرہوئے حضور نے تاخیر کاسبب دریافت فرمایا ابی بن کعب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا نماز پوری کرکے آیا ہوں اس لئے آنے میں دیر ہوگئی ہے۔ توحضور نے فرمایا کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی کہ جب تمہیں اللہ اوراس کے رسول بلائیں تو فوراً حاضر ہوجاؤ۔ یعنی نماز میں ہوتو بھی تمہارے لئے ضروری ہے کہ رسول کے بلاوے پرلبیک کہتے ہوئے نمازچھوڑ کر حاضرہوجاؤ۔ فقہا فرماتے ہیں کہ جوحضور کے بلانے کی وجہ سے نماز چھوڑ کرجائے گا وہ نماز میں ہی رہے گا جب تک حضور کی اطاعت میں ہے وہ نماز میں ہے۔ معاملات سے فراغت کے بعد جہاں تک پڑھ چکا تھا اس کے بعدسے نماز پڑھے۔ اللہ اللہ محبوب خدا کی عزت وعظمت کاکیاکہنا۔ سوچنے کی بات ہے کہ نماز جو تمام عبادتوں میں سب سے اہم عبادت ہے۔حالت نماز میں بھی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی تعظیم و توقیر بجالانے اوران کی اطاعت وفرمانبرداری کاحکم فرمایا ہے جس سے سرکار دوجہاں کی عظمت شان بخوبی عیاں ہے۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
ان سانہیں انساں وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان     بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
رسول کاہاتھ اللہ کاہاتھ ہے: اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب سے کس قدر محبت فرماتا ہے اس کا اندازہ اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حدیبیہ کے مقام پر صحابہ نے حضور کے ہاتھوں پر بیعت کی چنانچہ ارشاد ہوا۔اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَاَ یُبَایِعُوْنَ اللَّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیِْدِیْکُمْ (سورہ فتح پاری ۲۶آیت ۱۰)ترجمہ (اے رسول) بلاشبہ جو لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کررہے ہیں فی الحقیقت وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں گویا کہ اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کمال محبت کااظہار فرماتے ہوئے رسول کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قراردیا ہے۔
رسول کا فعل اللہ کا فعل ہے:سورہ انفال میں اللہ رب العزت نے رسول کے فعل کو اپنا فعل قراردیا ہے جس سے بارگاہ قدوس میں محبوب کامقام کیا ہے بخوبی ظاہر ہورہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے وَمَا رَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (سورہ انفال پارہ ۹آیت ۱۷) : ترجمہ:۔ اے محبوب جب آپ نے سنگریزے مارے تھے وہ آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے مارے تھے۔یہ آیت کریمہ ہمیں اس واقعہ کی بھی یاد دہانی کرارہی ہے کہ جب کفارمکہ نے حضور کو شہید کرنے کے ارادے سے آپ کے گھر کامحاصرہ کرلیاتھا تو آپ نے ایک مٹھی خاک زمین سے اٹھائی اوراسے کفار کی طرف پھینک دیا۔ اللہ کی قدرت سے وہ خاک ان کی آنکھوں میں جاپڑی اورکچھ لمحات کے لئے وہ سب بصارت سے محروم ہوگئے ۔ حضور حجرہ مبارکہ سے نکل کر غار ثور کی طرف روانہ ہوئے پھر غارثور سے مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی۔
رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے:قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بندوں کواپنی پیروی کے ساتھ رسول کی اطاعت وپیروی کابھی حکم فرمایا ہے اوریہ بھی فرمایا کہ رسول کی پیروی دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے چنا نچہ ارشاد ہوتا ہے مَنْ یُّطِیْع الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، (سورہ نسا ء پارہ ۵ آیت ۸۰) ترجمہ:۔ جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی (سورہ نساء پارہ ۴)مذکورہ بالاسطور سے عظمت رسول روز و روشن کی طرح عیاں ہے اورقرآن حکیم کی آیات بینات سے یہ باتیں واضح طور پر سمجھ میں آتی ہیں کہ اللہ رب العزت کے بعد 
جس ذات گرامی کو فوقیت اوربزرگی حاصل ہے وہ حضور کی ذات بابرکت ہے۔ اسی بناپراعلیٰ حضرت مجد دین ملت امام احمدرضا فرماتے ہیں۔
وہ جو نہ تحے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہے تو یہان کی جان ہے تو جہان ہے
محمد محفوظ صدف بھاگلپوری
8521878692
www.mahfoozalam78653@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ