سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری محمدطفیل احمد ؔمصباحی ادبؔ ایک تہذیبی عمل ہے اور شاعری اس کی لطیف ترین شکل ہے جو انسان کے جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے کے ساتھ اس کے فکر و شعور کو تازگی اور بالیدگی عطا کرتی ہے۔ ادبؔ خواہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں، اس کی حیثیت تفریحی نہیں، بلکہ تربیتی ہے۔ شعر کی معنی خیز نغمگی دل و دماغ میں ایک وجدانی اور روحانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ غزل اگر شاعری کی آبرو ہے تو حمدؔ و نعتؔ اس کی شان اور شعر و سخن کی معراج ہے۔ دینی نقطہء نظر سے اگر دیکھا جائے تو اردو کی یہ تقدیسی شاعری (حمد، نعت، منقبت) موجبِ خیر و برکت اور باعثِ تقویٰ و صلاح ہے۔ ادبی لحاظ سے اردو کی حمدیہؔ و نعتیہؔ شاعری، اردو زبان و ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو شاعری کی ابتداء حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ سے ہوئی۔ دکنؔ، دہلیؔ، لکھنؤؔ، عظیم آبادؔ، مرشد آباد کے ادبی مراکز کے وہ قدیم شعراء جو اردو کے ”سابقین اوّلین“ شعراء میں شمار کیے گئے، ان کے دواوینؔ و کلیات میں حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ کے اشعار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اردو کی اصنافِ شاعری میں صنف ”نعت گوئی“ سب سے مشکل تری
*رباعیاتِ شوقؔ نیموی ، ایک تعارفی جائزه* ( *از:طفیل احمد مصباحی*) ہندوستان کے علمی و ادبی مراکز میں ایک اہم اور معتبر نام " عظیم آباد " کا بھی ہے ، جس کو ایک مستقل دبستان کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس کے معزز اور سرکردہ اراکین میں بیدلؔ ، شادؔ ، جوششؔ ، راسخؔ ، عشقؔ ، حسرتؔ ، سہیلؔ ، ثاقبؔ ، افضلؔ ، بسملؔ ، رمزؔ ، واقفؔ ، بیخودؔ ، فلسفیؔ ، حمیدؔ ، بگٹٹ ، شمسؔ ، مظہرؔ ، ضمیرؔ ، سحرؔ ، ہمدمؔ ، نشاطؔ ، جمیلؔ ، شہباز وغیرہم کے نام شامل ہیں ۔ شعر و سخن کے علاوہ تحقیق و تنقید اور افسانہ و ناول نگاری کے میدان میں بھی فرزندانِ بہار نے قابل رشک ادبی خدمات انجام دی ہیں ۔ پروفیسر کلیم الدین احمد ، قاضی عبد الودود ، ڈاکٹر عبد المغنی اور اختر اورینوی ، اردو تحقیق و تنقید کے " عناصرِ اربعہ " کہے جاتے ہیں ۔ ماہرِ لسانیات ، رئیس المحدثین حضرت علامہ ظہیر احسن شوقؔ نیموی ( وفات : نومبر ۱۹۰۴ ء ) اسی شہرِ عظیم آباد کے ایک نامور سپوت تھے ۔ علم و فضل ، عقل و دانائی ، شعور و آگہی اور ذہانت و طباعی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ آپ کی
Comments