EHTEJAZ एहतेजाज احتجاج

*احتجاج*

*از🖋️محمد نعمان حیدری*


کوئی ملک ہو یا قوم ۔ ان کا مشکل یا بہتر دور سے گزرنا ایک عام بات ہے۔ بلکہ اسی سے تاریخ بنتی ہے اور ایسی تاریخ جسے صدیوں بعد بھی لوگ ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں آبا و اجداد کی یہ تاریخ پڑھ کر کبھی وہ خوشیوں سے جھوم اٹھتے ہیں اور کبھی رنج و غم میں ڈوب کر سر پیٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
     آج بھی جو تاریخ لکھی جارہی ہے وہ ملک و قوم کے لیے اتنی حیرت انگیز اور عبرت ناک ہوگی کہ ہماری آنے والی نسلیں شاید اسے بہت دنوں تک فراموش نہ کرسکیں !!
            تاریخ میں شاید ہی ایسا دور کبھی آیا ہو جب پورا ملک، ہر مذہب، ہر فرقہ، ہر طبقے کے لوگ ایک ساتھ اتنے مضطرب، اتنے خوف زدہ اور اتنے بے چین رہے ہوں جتنے آج ہیں ۔ آج کے لوگوں نے چنگیز، ہلاکو، ہٹلر، اور مسولینی کا دور نہیں دیکھا ہے صرف تاریخ کے صفحات پر بکھرے ان واقعات کو پڑھا ہے اور ان کے تذکرے سے آج بھی ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جہاں لوگوں نے اس دور کے ظلم و ستم کے واقعات کو پڑھا ہے وہیں ان واقعات کے انجام دینے والوں کے انجام کو بھی پڑھا ہے ۔ ان کے ذہنوں میں ہٹلر کے خاندان کی اجتماعی خودکشی اور مسولینی کی سڑک پر گھسٹتی لاش عبرت کے لیے آج بھی محفوظ ہے ۔ وہ وقت تھا آمریت کا ۔ آمر زیادہ تر ایسا ہی انجام پاتے ہیں لیکن وقت بدل گیا اب آمر آمریت کا لبادہ پھینک کر جمہوریت کا لباس زیب تن کرچکے ہیں۔ اب عوام اپنے ہاتھوں اپنے ووٹوں سے کسی کو اقتدار تک پہنچاتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد اقتدار کے نشے میں چور خود آمر بن جاتے ہیں ۔ اس کی زندہ و جاوید مثال خود ہمارا وطن عزیز ہے جہاں بڑے ارمانوں سے لوگوں نے ایک ایسی جماعت کو اقتدار سونپا تھا جس نے بڑے سبز باغ دکھائے تھے، ملک کا نقشہ بدل دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ جماعت اقتدار میں آگئی اور پہلا دور ختم کرکے دوسرے دور کا بھی کافی عرصہ نکال دیا لیکن سبھوں کو اس کا افسوس ہے کہ کچھ بدلا نہیں بلکہ سب کچھ الٹا ہوگیا۔ ایسے ایسے قوانین بنائے گئے جس کا سیدھا اثر غریب اور عام آدمی پر پڑا۔ بے روزگاری، غربت، نفرت اور آپسی نفاق نے پورے ملک کو اپنے حصار میں لے لیا، حکومت کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہی ہے کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لوگ پریشان ہیں اور پریشان ہوکر اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑے ہیں ان میں عورتیں بھی ہیں جنہوں نے کبھی گھر کے باہر قدم نہیں رکھا تھا وہ آج سراپا احتجاج ہیں۔ عورتیں، بوڑھے، جوان، بچے پورے ملک میں سردی کی اس ٹھٹھرتی رات میں سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں چاہے وہ شاہین باغ ہو یا پٹنہ کا سبزہ باغ، حیدرآباد ہو یا کیرالہ کا کوئی میدان غرض ہرجگہ ہزاروں لاکھوں افراد جان دینے کو تیار ہیں۔ حکومت کے بنائے ہوئے اس کالے قوانین اور ان کی بری نیت اور گاہے گاہے اقتدار پر مسلط بڑے بڑے وزراء خود وزیر اعظم جو بے تکی اور الٹی سیدھی باتیں کررہے ہیں اس سے لوگوں میں ہیجان پیدا ہورہا ہے ۔ کبھی وزیر اعظم اپنے وزراء کے بیان کی تردید کررہے ہیں ۔ عجیب عالم ہے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی کا بینہ ایسے سرپھرے لوگوں کا ایک گروپ ہے جس کے سامنے کوئی راستہ نہیں کوئی منزل نہیں ۔ اپنے ملک کی کیا حالت ہورہی ہے اس پر کوئی توجہ نہیں ہے بس سب کے سب اپنے دشمن نمبر ایک پاکستان کے روز شب پر نظر لگائے بیٹھے ہیں، کسی نے تنگ آکر کہا لگتا ہے ہمارے ملک کا بینہ پاکستان کا بینہ بن گئی ہے، جو صرف وہاں کے بارے میں سوچتی رہتی ہے عوام کو بھی ورغلایا گیا ہے اگر پاکستان کو تباہ و برباد کردیاگیا تو ہمارا ملک خود بخود تمام مسائل سے پاک ہوجائے گا۔ اپنے دوسرے دور کے انتخابی جلسوں میں برسر اقتدار جماعت نے یہی پالیسی اپناکر عوام کو کرکے ووٹ حاصل کیا تھا ۔ حکومت حاصل کرلینے کے بعد مودی اور ان کے ہمنواؤں میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ اپنے عوام کو بالکل بھول گئے ۔ مسلمان تو خیر بھولے ہی، دوسرے فرقہ اور دوسرے طبقہ کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ ان حالات کو بدلنا ہے۔ اگر آج خاموش رہ گئے تو نہ صرف وہ بلکہ ان کی آئندہ آنے وا لی نسلیں بھی اس منافرت کی آگ میں جھلس جائیں گی، اس آگ میں نہ صرف مسلمان جن سے ان کی خاص دشمنی ہے بلکہ بچھڑے طبقے کے لوگ جنہیں ہزارہا سال سے اونچی ذات والوں نے پیروں سے روندا سب کے سب جلاکر خاک کردیئے جائیں گے !!
           دوسری طرف حکومت بھی رسوائے زمانہ قانون کا نام بدل بدل کر کبھی, سی اے اے، کبھی این آر سی، کبھی این آر پی، رکھ کر اس قانون کو مسلط کرنا چاہتی ہے، جس کے ذریعے وہ ایک خاص مذہب، خاص طبقہ یا سماج لوگوں کو مشتبہ بتاکر ہمیشہ کے لیے اپنے رحم و کرم پر رکھنا اور انہیں اپنے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  پورا ملک آج دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے ایک وہ جو ایسے قانون کو لاگو کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ملک کو متحد رکھ کر روایتی گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر آگے لےجانا چاہتے ہیں !!
        اس ملک کے باشعور شہری کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پہلی قسم کے لوگوں میں شامل ہوکر گاندھی جی کے قاتل کی صف میں رہنا چاہتے ہیں یا دوسری صف میں شامل ہوکر گاندھی جی، اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، مولانا آزاد کی صف میں جگہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہم سوچتے رہے، حکمت عملی بناتے رہے، اور ملک کے پارلیمنٹ سے ایسے قانون پاس ہوتے رہے جن پر آج سبھی کف افسوس مل رہے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے ہم لوگوں کو متحد کرکے اس قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل پڑے ان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کریں ان کا ساتھ دیں جو دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کرکے اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ہم مستقبل ساز ہیں اچھے مستقبل کے امین، کوئی کوڑا کرکٹ نہیں جسے جھاڑو سے ہٹاکر کنارے لگادیا جائے۔ اس وقت سب سے زیادہ اہمیت ہے "سر" کی جسے وقت پر گِنَا بھی جاسکتا ہے اور کٹایا بھی جاسکتا ہے،، ہم پچیس فیصد لوگ جسے دبے کچلے لوگوں کے ساتھ ملاکر پچاس ساٹھ فیصد بنایا جاسکتا ہے ایک عظیم تاریخ رکھتے ہیں!!
       علمائے کرام کی تاریخ ہمارے آگے اور شہیدوں متوالوں کی تاریخ ہمارے پیچھے ہے۔ ہم حق پر ہیں اور حق ہمارے ساتھ ہے، اپنے عزیز وطن سے نکالے جانے یا ڈیٹن شن کیمپ میں ڈال دئیے جانے کا خوف کیوں ہو ۔ آپ سے حکومت جو بھی چاہے اگر ممکن ہو دکھادیجیے اور ممکن نہ ہوتا پیٹھ پھیر کر چلے جائیے ہر قسم کے فکر تردد سے آزاد ہوکر یاد رکھئے جو ڈرتا ہے وہ مرتا ہے اور جو لڑتا ہے وہ جیتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

رباعیاتِ شوقؔ نیموی ، ایک تعارفی جائزہ