Posts

Showing posts from April, 2023

راضیہ خاتون جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری

Image
  راضیہ خاتون جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری  ( طفیل احمد مصباحی ) ایشیا کی عظیم خدا بخش لائبریری ، پٹنہ کے بانی خان بہادر مولوی خدا بخش خاں مرحوم کی اہلیہ راضیہ خاتون جمیلؔہ مرحومہ ( وفات : ۱۹۲۱ ء ) اپنے وقت کی ایک باکمال خاتون اور مایۂ ناز شاعرہ تھیں ۔ کثرتِ کلام اور کمیتِ فن کے لحاظ سے وہ نہ صرف بِہار بلکہ پورے برِ صغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی شاعرہ تھیں ۔ شعر و سخن کی مختلف اصناف حمد و نعت ، غزل و مثنوی اور منقبت و رباعی پر قدرت رکھتی تھیں ۔ ان کی شعری و ادبی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ رشک ہونے کے ساتھ باعثِ حیرت بھی ہیں ۔ انہوں نے اپنی محنت و جاں فشانی سے اردو شاعری کے سرمایے میں وقیع اضافہ کیا ہے ۔ آٹھ ضخیم دیوان اور دو مجموعۂ مثنوی تخلیق کرنے والی اس جلیل القدر شاعرہ نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ دبستانِ عظیم آباد کی آن بان شان کہی جانے والی جمیلؔہ ۱۸۶۱ ء میں کلکتہ ، بنگال میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد کا نام مولوی کبیر الدین تھا ۔ شروع میں راضؔیہ اور خاتؔون تخلص کرتی تھیں ، لیکن بعد میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ مرشد علی جمال قادری علیہ الرحمہ کے نام کی رعایت سے جمیلؔہ تخلص کرنے لگیں ۔ اردو

آدم خور

Image
 آدم خور۔۔۔ ( ستونت کور ) شیشی جیما Chichi Jima جاپان کا ایک جزیرہ ہے جو مین لینڈ جاپان سے تقریباً 980 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ 35 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس جزیرہ کی آبادی 2000 نفوس پر مشتمل ہے۔ لیکن آج ، پرامن نظر آنے والا یہ جزیرہ دوسری جنگ عظیم میں نہ صرف ایک خون آلود اور تباہ کن میدانِ جنگ تھا بلکہ ایک ایسا خوفناک راز اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھا ، جس کی یاد امریکی فوج کے لیے ہمیشہ ایک ڈراؤنے خواب کی مانند رہے گی۔ ۔ جولائی 1944,  جاپان کے خلاف امریکہ کی فل سکیل جنگ اپنے عروج پر تھی اور جاپان کو ایک کے بعد ایک محاذ پر شکست کا سامنا تھا۔ جزیرہِ شیشی جیما پر جاپانی فوج نے اپنی کچھ مظبوط ترین عسکری تنصیبات بشمول 2 ریڈیو ٹاورز قائم کررکھی تھیں اور یہ جزیرہ سٹریٹجک اعتبار سے جاپان کے لیے بہت اہم تھا۔۔۔ جاپانیوں کی کمیونیکیشن لائنز تباہ کرنے کے لیے امریکی افواج نے اس جزیرے پر موجود دونوں ریڈیو ٹاورز کو بمباری کرکے تباہ کردینے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔لیکن۔۔۔اس پورے جزیرہ کے چپے چپے پر جاپانیوں نے طیارہ شکن گنز کا جال بچھا رکھا تھا ۔ جزیرہ کی فضاؤں میں پہنچ کر مطلوبہ ہدف پر بم گرا پانا

راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ

Image
 راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ ( از : طفیل احمد مصباحی )   یہ خطہ اب بھی بازارِ خُتن ہے با کمالوں سے غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے عظیم آباد ( پٹنہ ) کی علمی و ادبی اور روحانی عظمت کل بھی مسلم تھی اور آج بھی مسلم ہے ۔ ملک کے دیگر دبستانوں کی طرح دبستانِ عظیم آباد بھی عظیم ہستیوں ، باکمالوں اور قابلِ رشک افراد کی آماج گاہ رہا ہے ۔ اس کی علمی عظمت اور ادبی مرکزیت اس کے عظیم کارناموں سے ظاہر ہے ۔ الطاف حسین حالؔی جس وقت " مقدمۂ شعر و شاعری " لکھ کر اردو میں جدید تنقید کی بنیاد رکھ رہے تھے ، ٹھیک اسی زمانے میں عظیم آباد کے نامور سپوت امداد امام اثرؔ " کاشف الحقائق " لکھ کر اردو داں طبقے کو مغربی طرزِ تنقید سے روشناس کرا رہے تھے ۔ غرض کہ اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام اور ٹھوس علمی خدمات کے حوالے سے صوبۂ بہار کی تاریخ بڑی روشن اور تابناک رہی ہے ۔ علم و حکمت ، تہذیب و ثقافت ، صنعت و حرفت اور سیاست و صحافت کے میدان میں بہار اور فرزندانِ بہار کو بہت ساری امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ۔ دینی علوم اور شعری اصناف سے قطعِ نظر اردو نثر کی خدمت

Jame Shohood April To June 2023

Image
 https://mahfoozhome.files.wordpress.com/2023/04/jameshohoodapriltojune2023-compressed.pdf

علامہ شوقؔ نیموی کی نعت گوئی

Image
  علامہ شوقؔ نیموی کی نعت گوئی  : ( طفیل احمد مصباحی )  رئیس المحدثین ، ماہرِ عروض و لسانیات حضرت علامہ ظہیر احسن شوقؔ نیموی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۱۹۰۴ ء ) کی ہشت پہلو شخصیت کے مختلف رنگ و روپ ہیں ۔ وہ عالم ، محدث ، فقیہ ، مناظر ، حکیم و طبیب ، ماہرِ لسانیات ، ناقد و محقق ، ادیب و شاعر اور ایک کامیاب مدرس تھے ۔ اسلامی علوم کے علاوہ ادبی فنون میں بھی غایت درجہ کمال حاصل تھا ۔ " مولویت " نے ان کی " ادبیت " پر آج دبیز پردہ ڈال دیا ہے ، ورنہ شوقؔ نیموی صوبۂ بہار کے اس نامور سپوت کا نام ہے ، جس کی شاعرانہ عظمت اور ادبی جاہ و جلال کا ڈنکا عظیم آباد اور لکھنؤ سمیت پورے ہندوستان میں بجتا تھا ۔ آج سے ۹۰ / سال قبل ماہنامہ '' ندیم '' ، گیا کے مدیرِ اعلیٰ نے لکھا تھا کہ صوبۂ بِہار میں حضرت علامہ آزادؔ ، حضرت شادؔ مرحوم ، حضرت شوقؔ نیموی مرحوم وغیرہ ............  شعرا اور ادبا کی ایک ایسی جماعت تھی جس نے پورے ہندوستان پر اپنا سکّہ بٹھا رکھا تھا ۔  ( ماہنامہ ندیم ، گیا ، بِہار نمبر ، ص : ۵ ، جولائی و اگست ۱۹۳۳ ء ) اس مختصر سے مضمون میں موصوف کی شاعری اور بالخصو

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

Image
سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری محمدطفیل احمد ؔمصباحی ادبؔ ایک تہذیبی عمل ہے اور شاعری اس کی لطیف ترین شکل ہے جو انسان کے جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے کے ساتھ اس کے فکر و شعور کو تازگی اور بالیدگی عطا کرتی ہے۔ ادبؔ خواہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں، اس کی حیثیت تفریحی نہیں، بلکہ تربیتی ہے۔ شعر کی معنی خیز نغمگی دل و دماغ میں ایک وجدانی اور روحانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ غزل اگر شاعری کی آبرو ہے تو حمدؔ و نعتؔ اس کی شان اور شعر و سخن کی معراج ہے۔ دینی نقطہء نظر سے اگر دیکھا جائے تو اردو کی یہ تقدیسی شاعری (حمد، نعت، منقبت) موجبِ خیر و برکت اور باعثِ تقویٰ و صلاح ہے۔ ادبی لحاظ سے اردو کی حمدیہؔ و نعتیہؔ شاعری، اردو زبان و ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو شاعری کی ابتداء حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ سے ہوئی۔ دکنؔ، دہلیؔ، لکھنؤؔ، عظیم آبادؔ، مرشد آباد کے ادبی مراکز کے وہ قدیم شعراء جو اردو کے ”سابقین اوّلین“ شعراء میں شمار کیے گئے، ان کے دواوینؔ و کلیات میں حمدؔ و نعتؔ اور منقبتؔ کے اشعار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اردو کی اصنافِ شاعری میں صنف ”نعت گوئی“ سب سے مشکل تری