راضیہ خاتون جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری
راضیہ خاتون جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری
( طفیل احمد مصباحی )
ایشیا کی عظیم خدا بخش لائبریری ، پٹنہ کے بانی خان بہادر مولوی خدا بخش خاں مرحوم کی اہلیہ راضیہ خاتون جمیلؔہ مرحومہ ( وفات : ۱۹۲۱ ء ) اپنے وقت کی ایک باکمال خاتون اور مایۂ ناز شاعرہ تھیں ۔ کثرتِ کلام اور کمیتِ فن کے لحاظ سے وہ نہ صرف بِہار بلکہ پورے برِ صغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی شاعرہ تھیں ۔ شعر و سخن کی مختلف اصناف حمد و نعت ، غزل و مثنوی اور منقبت و رباعی پر قدرت رکھتی تھیں ۔ ان کی شعری و ادبی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ رشک ہونے کے ساتھ باعثِ حیرت بھی ہیں ۔ انہوں نے اپنی محنت و جاں فشانی سے اردو شاعری کے سرمایے میں وقیع اضافہ کیا ہے ۔ آٹھ ضخیم دیوان اور دو مجموعۂ مثنوی تخلیق کرنے والی اس جلیل القدر شاعرہ نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ دبستانِ عظیم آباد کی آن بان شان کہی جانے والی جمیلؔہ ۱۸۶۱ ء میں کلکتہ ، بنگال میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد کا نام مولوی کبیر الدین تھا ۔ شروع میں راضؔیہ اور خاتؔون تخلص کرتی تھیں ، لیکن بعد میں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ مرشد علی جمال قادری علیہ الرحمہ کے نام کی رعایت سے جمیلؔہ تخلص کرنے لگیں ۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان سے بھی واقفیت حاصل تھی ۔ داغؔ دہلوی اور شادؔ عظیم آبادی کی شاگردی نے جمیلؔہ کو اسم با مسمّیٰ بنا دیا ۔ ان کی فکر و شخصیت کو پروان چڑھانے میں ان کے شوہر مولوی خدا بخش کا بڑا اہم رول رہا ہے ۔ جمیلؔہ اپنے شوہر کے توسط سے ہی داغؔ و شادؔ سے اپنے کلام کی اصلاح لیتی تھیں ۔ " تذکرہ مسلم شعرائے بہار " کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
بی بی راضیہ خاتون نام ، جمیلؔہ تخلص ، شمس العلماء مولوی کبیر الدین صاحب کی بیٹی اور خان بہادر مولوی خدا بخش خاں صاحب کی زوجۂ محترمہ ۔ اکثر غزلوں میں راضیؔہ اور خاتؔون بھی تخلص کیا ہے ۔ شعر و سخن کا اعلیٰ مذاق ( ذوق ) تھا ۔ اردو اور فارسی دونوں پر قدرت رکھتی تھیں ۔ ان کا قلمی دیوان ( اب مطبوعہ ) آٹھ ضخیم جلدوں پر محیط ہے ۔
( تذکرہ مسلم شعرائے بہار ، جلد دوم ، ص : ۴۳ )
فنونِ لطیفہ ( جس میں شعر و ادب بھی شامل ہیں ) کی بنیاد نظارۂ جمال سے وابستہ ہے اور فنکار اسی جمالی تجربہ کے انوار کو اپنے فن پارہ میں جذب کر اسے قدر و قیمت عطا کرتے ہیں ۔ اردو کے ایک بڑے ناقد کا قول ہے کہ " ادب کا وہی مقصد ہونا چاہیے جو تمدن و تہذیب کا مقصد ہے یعنی خوب صورت تر اور زیادہ با برکت زندگی کی تخلیق ۔ ہمارے لیے صرف حسن و جمال یا شان و جلال کافی نہیں ، بلکہ ان میں رحمت و برکت کا امتزاج ضروری ہے ۔ فطرت اور مظاہرِ فطرت ہمارے لیے صرف خام پیدا وار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اپنے لیے خواہ کچھ بھی ہوں ، " فن برائے فن " کا نظریہ ناقص ہے ۔ فن اس وقت ارتقا کی اونچی منزلیں طے کرتا ہے جب وہ کسی بلند مقصد سے ہم آغوش ہو جائے " ۔ جمیلؔہ کی پاکیزہ نعتیہ شاعری اسی نوعیت و تناظر کی حامل ہے ۔ انہوں نے ممدوحِ کائنات جناب محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف و توصیف کر کے گویا پاکیزہ اور با برکت زندگی کی بنیاد رکھی ہے ۔ عشق و وارفتگی اور مذہب پسندی ان کی نعت گوئی کا اصل سبب ہے ۔ کیوں کہ جمیلؔہ صرف ایک بڑی شاعرہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم اور کامیاب مذہبی خاتون بھی تھیں ۔ گھر کے مذہبی ماحول اور سسرال کی علمی و مذہبی فضا نے ان کی فکر و شخصیت میں دین و مذہب کی تڑپ اور اخلاقی و روحانی اقدار کی روح پھونک دی تھی ، جس کا اثر ان کی زندگی اور فن پر بھی پڑا ۔ علاوہ ازیں حضرت شاہ مرشد علی جمال قادری علیہ الرحمہ کی بیعت و اردات نے " سونے پہ سہاگہ " کا کام کیا ۔ جمیلؔہ شروع سے صوم و صلوٰۃ کی پابند ، عابدہ و زاہدہ ، صابرہ و شاکرہ ، ذکر و اذکار کی خوگر اور تصوف آشنا خاتون تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت ان کا انتقال ہوا ، وہ تسبیح و تہلیل میں مشغول تھیں ۔ جمیلؔہ نے اپنا ایک خود نوشت سوانحی خاکہ بھی لکھا ہے ، جس میں وہ اس کا بات اعتراف کرتی ہیں کہ میری شاعری کو امدادِ الہٰی یا فیضانِ قادریہ عالیہ یا کرامتِ مرشد سمجھیے ۔
چشمۂ فیضِ جمالؔی وہ سمجھ لے اس کو
اس گنہگار جمیلؔہ کا جو دیواؔں پائے
آبرو دی جمالؔ نے ہم کو
ورنہ مشتِ غبار تھے صاحب
دیوانِ جمیلؔہ کے محقق و مرتب شفیع مشہدی لکھتے ہیں :
جمیلؔہ صوم و صلوٰۃ کی پابند ، تصوف اور طریقت سے متاثر ایک ایسی قادر الکلام شاعرہ تھیں جن کے کلام میں حمد ، نعت ، منقبت ، قصیدے ، رباعیات اور مثنوی کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے ۔ خصوصی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور اپنے مرشد حضرت جمال سے وہ بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں اور ان کی شان میں بیشمار اشعار کہے ہیں .......... دبستانِ عظیم آباد کی اس ممتاز ترین صاحبِ دیوان شاعرہ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے جو جوہر دکھائے ہیں ، ان کا اعتراف لازم ہے ۔ جمیلؔہ کے آٹھ دواوین اور دو مثنویوں ( احسن المطابق ، عقد النیّرین ) کا مجموعہ موجود ہیں ۔
( دیباچہ دیوانِ جمیلہ ، جلد دوم ، ص : ۱۳ ، ناشر : خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ )
شعری و ادبی دنیا میں شاعرات کی کمی نہیں ، لیکن نعت گو شاعرات کی تعداد غزل گو خواتین کے مقابلے میں بہر حال کم ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جو شاعرہ غزل گوئی سے جتنا قریب رہی ، نعت گوئی سے وہ اتنا ہی دور رہی ۔ لیکن جمیلؔہ جتنی بڑی غزل کی شاعرہ ہیں ، اتنی ہی بڑی نعت کی شاعرہ بھی ہیں ۔ ان کے آٹھوں شعری دواوین میں جا بجا نعتیہ کلام و اشعار بکھرے ہوئے ہیں ۔ وہ دورانِ غزل بھی نعت یا منقبت کے اشعار موزوں کر دیتی ہیں ۔ شاید یہی بات غزل میں عشق و آوارگی ، ابتذال و سطحیت ، شراب و کباب ، موج مستی اور نغمہ و بلبل کی ادائیں ڈھونڈنے والوں کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے جمیلؔہ جیسی عظیم شاعرہ کو وہ اہمیت نہیں دی ، جس کی وہ مستحق تھیں ۔ خیر کسی کی اہمیت دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ تقدیسی شاعری اللہ و رسول کے نزدیک اہمیت کی حامل ہے ۔ بشرطیکہ وہ الوہیت و رسالت کے لطیف ترین مقام و منصب کی پاس دار ہو ۔ جمیلؔہ نہ صرف غزل گو شاعرات میں بلکہ نعت گو شاعرات میں بھی ایک منفرد و ممتاز حیثیت کی حامل ہیں ۔ ان کی نعتیہ شاعری کمیت و کیفیت کے لحاظ سے قابلِ قدر ، روح پرور اور وجد آفریں ہے ۔ خدا بخش لائبریری ، پٹنہ سے اب تک ان کے سات شعری دیوان اور ایک مجموعۂ مثنوی ( احسن المطالب ، جو حضرت مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہ کی منقبت پر مشتمل ہے ) شائع ہو چکا ہے ۔ یوں تو ان کے سارے دیوان میں نعتیہ اشعار موجود ہیں ، لیکن خصوصیت کے ساتھ " دیوانِ جمیلہ جلد اول " میں کثرت سے تقدیسی شاعری یعنی حمد و نعت و منقبت کے نمونے موجود ہیں ۔ دیوانِ جمیلؔہ جلد اول کے یہ منتخب حمدیہ و نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور اس باکمال شاعرہ کی پروازِ فکر و فن کا تماشہ دیکھیں :
ہوا ہے مدِّ بسم اللہ غازہ تیری وحدت کا
بنا کیا خوب طغریٰ ہے یہ منشورِ سعادت کا
ہوئی ہے آیتِ '' الحمد '' سے رحمت تری ظاہر
نہیں ہے اب ترے بندوں کو کچھ کھٹکا قیامت کا
رسولِ ہاشمی جلوہ ہے تیرے نورِ اقدس کا
سہارا عاصیوں کو ہو گیا ان کی شفاعت کا
نہیں ہے نامۂ اعمال کی پروا مجھے کوئی
مجھے ہے آسرا اس حامیِ دیں کی حمایت کا
نہ ہو کیوں کر محبت اس شہِ لو لاک سے پیدا
کیا جس کو خدا نے اپنے نورِ پاک سے پیدا
جنوں تو سچ بتا یہ دشت کیا صحرائے بطحا ہے
کشش ہے اس جگہ کے ہر خس و خاشاک سے پیدا
عیاں ہے نغمۂ بلبل سے گلشن میں ثنا تیری
ترانہ کی صدا ہے ہر گلِ صد چاک سے پیدا
کلیجہ تھام لوں کیوں کر نہ خاتؔوں نامِ احمد پر
ہوا ہے عشق مجھ کو بھی شہِ لو لاک سے پیدا
جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری اردو کی کلاسیکی شعری روایت کا حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نسوانی لہجے میں متانت و سنجیدگی ، عشق و ارفتگی اور شیفتگی و دل آویزی ہے ۔ ذیل کے اشعار دیکھیں کہ روایتی پس منظر میں ہونے کے باوجود کس قدر جان دار اور شان دار ہیں :
لوحِ دل پر کِھنچ گیا ہے یہ الف اللہ کا
ہے نشانِ عشقِ صادق وہ رسول اللہ کا
ناصیہ سائی جہاں کی آج کرتے ہیں ملک
ہوں گدا روزِ ازل سے میں اسی درگاہ کا
شعلۂ ہجرِ شہِ دیں نے جلایا ہے مجھے
لا مکاں تک اب دھواں جاتا ہے میری آہ کا
ہو عنایت کی نظر اس پر رسولِ ہاشمی
حال ابتر ہے تمہارے بندۂ درگاہ کا
اک جھلک رخسارِ زیبا کی ترے آئی نظر
رنگ پھیکا پڑ گیا عالم میں مہر و ماہ کا
جس کی کرتا ہے خداوندِ دو عالم خود ثنا
نعت گو ہے دل مرا اس شاہِ عالی جاہ کا
امتی کی اے جمیلؔہ دل سے آتی ہے صدا
نام آتا ہے زباں پر جب ' رسول اللہ ' کا
شاعری الفاظ کی مصوری ، معانی کی تہہ داری ، جذبہ و احساس کی لطیف ترجمانی اور مواد و ہیئت کی جمال آفریں ترکیب و تجسیم سے وجود پاتی ہے ۔ اس میں نغمگی اور ترنم کا ہونا بھی لازمی ہے ۔ علاوہ ازیں ترکیبِ الفاظ ، فقروں کی تراش خراش ، جملوں کی حسین بندش اور تشبیہ و استعارہ کا فنکارانہ استعمال شاعری کے اضافی اوصاف ہیں ۔ جمیلؔہ کی نعت گوئی میں جذبات و احساسات کی پاکیزگی کے ساتھ قابلِ قدر مواد و ہیئت کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا ہے ۔ ایک خاتون نعت گو شاعرہ نے آج سے تقریباً ایک سو بیس سال قبل نعت گوئی کا جو حسین و جمیل مرقع پیش کیا تھا ، وہ آج بھی تازہ و بالیدہ اور مذکورہ بالا شعری اوصاف سے مزین ہے ۔ اشعار دیکھیں :
جو روشن طور پر تھا وہ تجلّی دل میں رکھتے ہیں
' رسول اللہ ' کا نقشِ کفِ پا دل میں رکھتے ہیں
سمائی ہے محبت سرورِ کونین کی اس میں
کہاں ہم فکرِ دیں اور فکرِ دنیا دل میں رکھتے ہیں
یہی جینے کا باعث ہے تمہارے نا مرادوں کے
کہ پوشیدہ تمہاری یاد آقا دل میں رکھتے ہیں
ہماری خاک کو تو اے صبا طیبہ میں پہنچانا
کہ ہم پا بوسیِ شہ کی تمنا دل میں رکھتے ہیں
شہِ دیں مہرباں ہو کر ہوئے مسکن گزیں اس میں
جمیلؔہ ! آج ہم عرشِ معلیٰ دل میں رکھتے ہیں
جمیلؔہ کے نعتیہ کلام میں روایت کے ساتھ جدت و ندرت بھی پائی جاتی ہے ، جو ان کی شاعرانہ عظمت پر دال ہے ۔ معنیٰ آفرینی کی یہ مثال بھی خوب ہے :
احدؔ میں اور احمدؔ میں فقط اتنا سا پردہ ہے
وہ لفظِ ' نعبد ' میں ہے ، یہ لفظِ ' نستعیں ' میں ہے
عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کی جان اور دین کی پہچان ہے ۔ نعت گوئی کے لیے عشقِ رسول لازمی ہے ۔ دل میں جب تک عشقِ رسول کی شمع روشن نہ ہو ، فکر و خیال کی دہلیز پر نعت کے اشعار دستک نہیں دے سکتے ۔ عشق جتنا گہرا اور محبت جتنی شدید و قوی ہوگی ، نعتیہ شاعری اتنا ہی وسیع ، ہمہ گیر اور بالیدہ ہوگی ۔ عشقِ رسول جسمِ ایمان کی زریں قبا اور محرابِ حیات کے لیے سامانِ تزئین ہے ۔ محبتِ رسول سب سے قیمتی سرمایہ اور ہر عاشقِ صادق اپنے وقت کا " اویسِ قرنی " ہے ۔ نعت گو شاعر بلبلِ عندلیبِ رسالت ہوا کرتا ہے ، جس کی نغمہ سنجیوں کے آگے بلبلِ ہزار داستاں بھی سجودِ نیاز لٹاتا ہے ۔ مدینہ منورہ سلطنتِ عشق کی راجدھانی ہے ، جس میں قیام کی آرزو ہر عاشقِ صادق کرتا ہے ۔ غریب الوطنی ایک قسم کی حرماں نصیبی ہے ، لیکن ایک محبِ رسول اپنا گھر بار چھوڑ کر شہرِ مدینہ میں بود و باش اختیار کرنے کی تمنا کرتا ہے اور " مشتاقِ غریب الوطنی " نظر آتا ہے ۔ جمیلؔہ نے ان تمام حقیقتوں کا اظہار بڑے کیف آگیں لہجے میں کیا ہے :
حاصل ہے وہ دولت کہ زمانے میں غنی ہوں
شیدا ہوں نبی کا میں ' اویسِ قَرَنی ' ہوں
مدّاح رسولِ عَرَبی کی ہوں ازل سے
بلبل ہے فدا جس پہ وہ مرغِ چمنی ہوں
اے جذبِ دلِ زار دکھا شہرِ مدینہ !!
مدت سے میں مشتاقِ غریب الوطنی ہوں
مکّہ میں رہوں گی کبھی طیبہ میں رہوں گی
تا فخر ہو اس کا کہ میں مکّی مَدَنی ہوں
عزت نہ کریں عرش پہ کیوں میری ملائک
شیدائی محمد کی میں اللہ غنی ہوں
واہ کیا کام آ گیا ہے خاک میں ملنا مرا
جذبِ دل نے نقش پائے مصطفیٰ مجھ کو کیا
قضا نے یک بہ یک آ کر مبارک باد دی مجھ کو
جمیلؔہ ! چل تجھے محبوبِ یزداں نے بلایا ہے
گلِ خنداں تو عبث ناز کیا کرتے ہیں
جلوۂ رخ سے ترے ان میں نزاکت آئی
نورِ احمؔد سے جمیلؔہ نے کہا خوش ہو کر
تیرے جلوؤں سے ان آنکھوں میں بصارت آئی
جمیلؔہ مختلف اصنافِ سخن پر یکساں عبور رکھنے والی ایک قادر الکلام اور پُر گو شاعرہ تھیں ۔ انہوں نے نعوت و مناقب اور غزلیات و مثنویات کے علاوہ متعدد قصائد بھی کہے ہیں ۔ ان کا مندرجہ ذیل " نعتیہ قصیدہ " فکر و خیال کی پاکیزگی ، زبان و بیان کی چاشنی اور اسلوب کی شگفتگی کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ قصیدہؔ قصد سے مشتق ہے ۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہارِ خیال کا قصد کرتا ہے ۔ قصیدہ کا ایک معنی " مغز " بھی ہے ۔ یہ صنفِ سخن چوں کہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصنافِ شعر کے مقابلے میں وہی امتیازی حیثیت رکھتی ہے ، جو انسانی جسم میں سر یا مغز کو حاصل ہوتی ہے ۔ قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے ۔ اس میں بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے ۔ پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ قصیدہ دو طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک تمہیدیہ اور دوسرا مدحیہ ۔ قصیدہ تمہیدیہ میں تشبیب ، گریز ، مدح اور دعا یا خاتمہ جیسے چاروں اجزا پائے جاتے ہیں ، جب کہ قصیدہ مدحیہ ڈائریکٹ مدح سے شروع ہوتا ہے ۔ جمیلؔہ کا یہ نعتیہ قصیدہ پہلی قسم ( قصیدہ تمہیدیہ ) سے تعلق رکھتا ہے ۔ قصیدے کی تشبیب یہ ہے :
بھر دے تو ساقیا مئے اطہر سے جام کو
ہو کر میں تر دماغ لکھوں اس کلام کو
حیراں ہوں دل میں نور یہ کس کا سماں گیا
جس نے نکال پھینکا خیالاتِ خام کو
جاورب کش ہے بادِ سحر کس کے باغ کی
ہر شاخِ گل خمیدہ ہے کس کے سلام کو
آمد ہے آج کون سے عالی مقام کی
عرشِ بریں سے آئے ملک اہتمام کو
یا رب ہے کون ناقۂ رحمت پہ جلوہ گر
تھامی ہے جبرئیل نے جس کی لگام کو
تشبیبؔ کے ان معنیٰ خیز اور قدرے پُر شکوہ ابیات کے بعد گریزؔ اور مدح کے اشعار اس طرح شروع ہوتے ہیں :
اے دل زباں کو روک لے جائے ادب ہے یہ
کیا جانتا نہیں مرے عالی مقام کو
قرآں میں اپنے نام سے ربِّ جہاں نے خود
شامل کیا ہے ' احمدِ مرسل ' کے نام کو
کعبہ بتوں سے پاک انہیں کے سبب ہوا
وقعت ہے ان کی دی ہوئی بیت الحرام کو
وقتِ ولادت آپ کے بت سرنگوں ہوئے
سطوت نے پست کر دیا کسریٰ کے بام کو
باغِ قِدَم کا وہ تو گلِ بے مثال ہے
نکہت نے جس کے ایسا بسایا مشام کو
قدسی ہٹاؤ حشر کے اس ازدحام کو
چوموں قدومِ حضرتِ خیر الانام کو
پڑھ کر ' قصیدہ نعتیہ ' آقا سے یہ کہوں
دیجے قبولیت کی سند اس غلام کو
گریزؔ و مدحؔ کے بعد جمیلؔہ نے اپنے نعتیہ قصیدہ کا اختتتام اس دعا کے ساتھ کیا ہے :
قاصد نہیں ، سفیر نہیں ، نامہ بر نہیں
پہنچا دے اے نسیم ہمارے پیام کو
کس روز میرے دل کی بر آئے گی آرزو
کس دن طلب حضور کریں گے غلام کو
از حد جمیلؔہ آمدِ احمد کی ہے خوشی
نکلی ہے جسم چھوڑ کے جاں بھی سلام کو
جمیلؔہ کے بہیترے نعتیہ اشعار ایسے ہیں جو خالص فکری نوعیت کے حامل اور ادبی و فنی تقاضوں کے آئینہ دار ہیں ۔ ان کی نعت گوئی میں فکر و تخیل کا والہانہ پن ، سیرت کی عکس ریزی ، موضوعات کا تنوع ، جذبات کی شدت و حرارت ، شیفتگی و ربودگی ، اسلوب کی دلکشی ، فصاحت و بلاغت اور سلاست و روانی پائی جاتی ہے ۔ مذکورہ بالا نعتیہ قصیدے میں یہ سارے محاسن دیکھے جا سکتے ہیں ۔ راقم الحروف کا مقصد کا جمیلؔہ کی نعتیہ شاعری کا فکری و فنی تجزیہ نہیں ، بلکہ ایک نعت گو کی حیثیت سے ان کا تعارف کرانا ہے اور کسی بھی نعت گو شاعر کے تعارف کے لیے اتنا کافی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمیلؔہ کی شاعری اور بالخصوص ان کی نعت گوئی کا بھر پور تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے اس کی ادبی قدر و قیمت واضح کی جائے اور نعت گو شعرا کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا جائے ۔ ان شاء اللہ العزیز جمیلؔہ کی منقبت نگاری پر بھی ایک تحریر آپ حضرات کی خدمت میں عنقریب پیش کی جائے گی ۔
Comments