منقبت نگاری کا فن اور مناقبِ مخدوم جہاں


منقبت نگاری کا فن اور مناقبِ مخدوم جہاں

( از قلم: محمدطفیل احمدمصباحی ) 

سلطان المحققین ، رئیس المحدثین ، فخر المفسرین ، سید المتکلمین ، زبدۃ العارفین ، امام الاصفیاء ، شیخ المشائخ ، مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ ( متوفیٰ : ۷۸۲ ھ ) کی ذاتِ مقدسہ شریعت و طریقت اور علم و روحانیت کی مجمع البحرین تھی ۔ آپ کے علم و فضل ، زہد و تقویٰ ، عبادت و مجاہدہ ، ذہانت و طبّاعی ، تحقیق و تدقیق ، ولایت و روحانیت ، کشف و کرامت اور گراں قدر دینی و علمی اور روحانی خدمات پر اصحابِ شریعت و طریقت کا اتفاق ہے ۔ صوبۂ بِہار کو پُر بَہار اور پُر وقار بنانے میں آپ کی مساعیِ جمیلہ کو فراموش نہیں کیا سکتا ۔ حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ بلا شبہہ علم و حکمت اور عرفان و ولایت کے نہایت اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ آپ کی بلند پایہ تصنیفات اور بیش قیمت نگارشات اس پر شاہد ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے منظوم و منثور فضائل و مناقب بیان کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ اس حوالے سے دو ممتاز اہلِ علم و فضل کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں  : 
( ۱ )   مؤلفِ مرأۃ الاسرار حضرت علامہ شیخ عبد الرحمٰن چشتی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں  : 

آں جائے نشینِ انبیا با استحقاق ، آں غریقِ بحرِ مشاہدہ باتفاق ، آں خو گرفتہ بہ کمال بردباری ، قطبِ مشائخ ، حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ کاملانِ وقت میں سے تھے ۔ آپ شانِ بزرگ ، احوالِ مستور اور بلند ہمت کے مالک تھے ۔ ابتدائے حال سے لے کر انتہائے سلوک تک آپ پیکرِ سنتِ نبوی رہے ۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ " انبیائے علیہم السلام معصوم اور اولیا محفوظ ہیں " آپ اس کے صحیح نمونہ تھے ۔ آدابِ مذہبِ صوفیہ جس قدر آپ کی تصانیف میں پائے جاتے ہیں اور کہیں نہیں ملتے ۔
( مرأۃ الاسرار ، جلد دوم ، ص : ۳۴۲ ، ناشر : درگاہ حضرت نظام الدین اولیا ، دہلی )


( ۲ )   محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ " اخبار الاخیار " میں لکھتے ہیں  : 
حضرت شیخ شرف الدین ، حضرت یحییٰ منیری کے فرزند تھے ۔ آپ کا شمار ہندوستان کے مشہور مشائخ میں ہوتا ہے ۔ آپ کے فضائل و مناقب محتاجِ بیان نہیں ۔ آپ کی تصنیفات بھی کثرت سے ہیں ، جن میں " مکتوبات " زیادہ مشہور ہیں ۔ یہ اس لحاظ سے بھی بے نظیر اور بہترین کتاب ہے کہ اس میں آدابِ طریقت اور رموزِ حقیقت درج کیے گئے ہیں ۔ 
( اخبار الاخیار مترجم ، ص : ۲۵۵ ، ناشر : اکبر بک سیلرز ، لاہور )

حضرت مخدوم جہاں کے یہی وہ علمی و روحانی کمالات تھے ، جن سے عوام و خواص سبھی متاثر ہوئے ۔ علما و فقہا ، صوفیا و مشائخ ، ارباب لوح و قلم ، شعر و ادبا اور مصنفین و مؤرخین  نے آپ کی شایانِ شان تعریف و توصیف کی اور آپ کی بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج نظم و نثر میں پیش کیا ۔ تارک السلطنت ، غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے آج سے تقریباً ساڑھے چھ سو سال قبل یہ مدحیہ شعر کہہ کر : 

دلا ہرگز نہ یابی در جہاں ہمچوں شرفؔ پیرے 
 کہ مالا مال ازو شد سیدِ اشرف جہانگیرے

آنے والے شعرا کو ایک ذہن دے دیا تھا اور " مناقبِ مخدوم جہاں " کے لیے راستہ ہموار فرما دیا تھا ۔ راقم الحروف کی نظروں سے تذکرہ و سوانح کی تقریباً تین درجن کتابیں ایسی گذری ہیں ، جن میں حضرت مخدوم جہاں کا اجمالی و تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔ اگر اس نوعیت کے مضامین یکجا کیے جائیں تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ حضرت مخدوم جہاں بر صغیر پاک و ہند کے ان جلیل القدر صوفیا و مشائخ میں سے ایک ہیں ، جن کی حیات و خدمات پر مضامین و مقالات اور قصائد و مناقب کثرت سے لکھے گئے ہیں ۔


جملہ معترضہ کے طور پر یہاں اس امر کا اظہار مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ مخدوم جہاں اور آپ کے نام ور تلامذہ و خلفا کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے مالامال ہو کر جو ریاستِ بِہار ہند کے نقشے پر موجود ہے ، اس کا مختصر علمی و ادبی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کیا جائے ۔ اپنے وقت کے ممتاز محقق پروفیسر معین الدین دردائی صوبۂ بِہار کا علمی و ادبی حال یوں بیان کرتے ہیں  : 


زمانہ کی ستم ظریفی بھی دیدنی ہے کہ وہ بِہار جس کی خاک پاک سے مرزا بیدل ، سید عماد ، سجاد ، تحقیق ، راسخ ، جذب ، جوشش ، خلیل ، عبرتی ، شاد اور اثر جیسی ہستیاں اٹھیں ، آج اس کی اپنی علمی اور ادبی کارناموں کی ترجمانی کے لیے مجھ جیسے بے بضاعت کا انتخاب کرنا پڑا ۔ نالندہ کا دار العلوم ( نالندہ یونیورسٹی ) ، اشوک اور چندر گپت کا دار السلطنت ، مہاتما بدھ کا مولد اور سیاحانِ یونان و چین کا قبلۂ مقصود ، یاد ایامے کہ یہی خطۂ بِہار تھا ۔ شاک منی نے اپنا پیامِ نجات یہیں سے سنایا اور پٹھانوں کے لوہے کو یہیں کے ایک تلوار کے دھنی شیر شاہ سوری نے منوایا ۔ اردو شعر و ادب کے پرستار ملا محمد علیم تحقیقؔ کے خلوص ، حسرتؔ و انورؔ کی قادر الکلامی اور راجہ شتاب رائے کے فرزند المتخلص بہ عاشقؔ کی خدمتوں کو آج بھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ جہاں تک اردو کی نشو نما کا تعلق ہے ، بِہار کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں ۔ ناصر الدین اور ان کے بیٹے معز الدین کیقباد کی جنگ کے حالات کو فارسی میں حضرت امیر خسرو سے بہت پہلے ایک بہاری شاعر نے اس زمانہ کی اردو زبان میں قلمبند کیا تھا ۔ خسرو کی "  قران السعدین " ہر جگہ مشہور ہے ، لیکن غریب بہاری شاعر کا بھی ایک شعر یاد رہے  : 

من کی اور جڑی نگری کو تب کریں آباداں
ناصر دیں سے جب ملیں موجدین کباداں 

شعر و شاعری اور فسانہ و حکایات سے قطعِ نظر اگر ہم ٹھوس علمی خدمات کا جائزہ لیں تو ہمیں بِہار کا حصہ اردو زبان کی خدمت میں کسی اور صوبہ سے کم نہیں نظر آئے گا ۔ طبِ جدید کی مشہور شاخ ہو میو پیتھک کے متعلق سب سے بڑا ابتدائی ذخیرہ بِہار ہی میں ڈاکٹر صفدر وغیرہ نے مہیا کیا ۔ اردو لُغت کی سب سے مستند کتاب "  فرہنگِ آصفیہ  " کا مصنف سید احمد صوبۂ بہار ضلع مونگیر ہی کا باشندہ تھا ۔ بہت سے لوگ میرے اس دعویٰ پر بہت متعجب ہوں گے ۔ کیوں کہ ہر خاص و عام سید احمد کو دہلوی سمجھتا ہے اور سید احمد دہلوی کے نام سے مشہور بھی ہیں ۔ لیکن ہم اپنے دعویٰ کی تائید میں سید احمد ہی کی لکھی ہوئی تحریر پیش کریں گے ، جو انہوں نے فرہنگِ آصفیہ کے دیباچہ میں لکھا ہے .............. فلسفۂ جدید کے اساطین ہیوم ، برکلے ، دی کارٹ ، کانت وغیرہ کے نظریات کو سب سے پہلے بہار ہی کے ایک مشہور اہلِ قلم نواب امداد امام اثرؔ نے اردو زبان میں منتقل کیا تھا ، جو " روضۃ الحکماء " اور " مرأۃ الحکماء " کے نام سے علما اور فضلا کے حلقے میں بہت زیادہ مشہور ہے ۔ زراعت اور باغبانی کے متعلق جدید نظریات و تجربات کو مقامی تجربات اور مشاہدات کے ساتھ مخلوط کر کے " کتاب الاثمار " اور " کیمیائے زراعت  " کے نام سے اسی قابلِ فخر بزرگ نے اردو ادب میں پیش کیا ۔ مغربی شعرا ہومر ، ورجل ، دانتے ، ملٹن ، شکسپیئر وغیرہ کے کلام کی خصوصیتوں کو تراجم کے نمونوں کے ساتھ سب سے پہلی مرتبہ اسی صاحبِ کمال بزرگ ( امداد امام اثرؔ ) نے اردو زبان جاننے والوں میں روشناس کرایا تھا ۔ اس سے کچھ اور تو نہیں مگر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بِہار نے دہلی اور لکھنؤ سے بہت پہلے اردو کی طرف توجہ کی ۔ قاعدہ ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی دعویدار نہیں ہوتا تو دوسرے لوگ اس پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ یہی حال بِہار کے اکثر مشاہیر کا ہے ۔
( بہار اور اردو شاعری ، ص : 1 ، 4 ، ناشر و مطبع درج نہیں ہے )


*منقبت کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ*  : 
" منقبت " عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے لغوی معنیٰ تعریف و توصیف ، صفت و ثنا ، خاندانی فضیلت و برتری ، ہنر یا بڑائی کے ہیں ۔ منقبت کی جمع " مناقب " ہے ۔ اصطلاحِ شعر میں " منقبت " سے مراد ایسی نظم ہے جس میں صحابۂ کرام ، اولیائے عظام اور بزرگانِ دین کے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں ۔ قدیم اُردو شاعری کی روایت رہی ہے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام کی شان و فضیلت اور نیکوکاروں ( اولیائے کاملین و بزرگانِ دین ) کی سیرت و عظمت کے مضامین بیان کیے جاتے تھے ۔ اُردو زبان کے قدیم شعرا میں سب سے مقدم سلطان قلی قطب شاہ کے کلام میں حمد و نعت کے بعد منقبت کا کافی حصہ شامل ہے ۔ بعد ازاں سوداؔ اور میرؔ نے تواتر کے ساتھ مذہبی جوش میں لبریز ہو کر منقبت میں متعدد قصائد لکھے ہیں ۔ منقبت کے حوالے سے انشاء اللہ خاں انشاؔ کا نام بھی خاصا اہم ہے ، جنھوں نے اس صنف میں زیادہ زورِ طبع صرف کیا اور خلفائے راشدین کے علاوہ ایک قصیدہ بارہ اماموں کی منقبت میں لکھا :

انشاؔ بس آگے کچھ تو لکھ وصفِ دوازہ امام
خاصہ جنھوں کے چاکراں آتش و باد و آب و خاک

انشاؔ نے ایک بے نقط منقبت بھی لکھی ، جس کا مطلع ہے :

 ہلاؤ مروحہ آہِ سرد کو ہر گام
کہ دل کو آگ لگا کر ہوا ہوا آرام

منقبت نگاری میں نظیرؔ آبادی ، میر انیسؔ ، مرزا دبیرؔ ، مرزا غالبؔ ، امیرؔ مینائی ، احمد رضا بریلوی ، محسنؔ کاکوری اور جعفرؔ بلوچ کے نام شامل ہیں ۔ نظیرؔ اکبر آبادی کے کلیات میں حضرت علی کی منقبت ، حضرت علی کا معجزہ ، مناقبِ شیرِ خدا ، مدحِ پنجتن ، مدحِ حضرت سلیم چشتی اور نذرِ حضرت گرو گنج بخش شامل ہیں ، جن کے اقتباس یہاں درج کرنا مشکل ہے ۔ البتہ یہاں مرزا غالبؔ کی " فی المنقبت " سے چند شعر درج کیے جاتے ہیں  جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں لکھے گئے ہیں :

دہر جُز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں

مظہرِ فیضِ خدا ، جان و دلِ ختمِ رُسُل
قبلہ آلِ نبی ، کعبۂ ایجادِ یقیں

کس سے ہوسکتی ہے مداحیِ ممدوحِ خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں 

" بانگِ درا " میں شامل علامہ اقبال کی دو نظمیں بہ عنوان  " بلال " اور نظم " صدیق " جس کا آخری شعر ہے :

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

ایسی مناقب ہیں جن کو پڑھ کر روحانی سکون مُیسر آتا ہے ۔ 

 ( اصنافِ نظم و نثر ، از : ڈاکٹر علی محمد خاں و ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ، ناشر : الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب ، ص : ۶۲ - ۶۴ )


*اردو شاعری میں منقبت نگاری کی روایت*  : 

منقبت نگاری ایک قدیم صنفِ سخن ہے ۔ جب سے اردو شاعری وجود میں آئی ہے ، حمد و نعت کے ساتھ منقبت بھی مسلسل پروان چڑھتی رہی ہے ۔ مذہبی حیثیت سے اردو شاعری کے قابلِ ذکر اقسام میں حمد و نعت کے بعد منقبت نگاری کا درجہ آتا ہے ، جو اس وقت شہرت و مقبولیت کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے ۔ تقدیسی شاعری میں صنفِ نعت کے بعد منقبت نہایت مقبول اور ہر دل عزیز صنف بن کر ابھری ہے ، جس کے بہت سارے اسباب و عوامل ہیں ۔ منقبت کی مقبولیت اور اس کے ارتقا کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اردو زبان ( بشمولِ نظم و نثر ) صوفیائے کرام کی آغوشِ شفقت میں پروان چڑھی ہے اور منقبت انہیں نفوسِ قدسیہ کے فضائل و محاسن پر مشتمل ہوا کرتی ہے ۔ ہر بڑا شاعر یا خود صوفی اپنے پیش رو اولیائے کرام اور مشائخِ وقت کے عقیدت کیش رہے ہیں ، اس لیے صنفِ منقبت کا پروان چڑھنا ایک فطری امر تھا ۔


منقبت نگاری کے آغاز و ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر فرحانہ شاہین لکھتی ہیں  : 


 اردو زبان میں نعت و منقبت کی روایت عہدِ قدیم ہی سے ملتی ہے ۔ جس وقت اردو زبان کی پیدائش ہوئی تھی اور اپنی ابتدائی منزل طے کر رہی تھی ، مختلف علما ،صوفیا اور اولیا کی گودوں میں یہ پروان چڑھ رہی تھی ، اسی وقت سے ہمیں نعت و منقبت کے ابتدائی نقوش ملنے لگتے ہیں اور روز افزوں یہ ترقی کی منزلیں طے کرتی گئیں اور آج اردو شاعری کے افق پر شعرائے نعت و منقبت کے روشن 
ستارے جگمگا رہے ہیں ۔

( بِہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ ، ص : ۷۹ )
 
 تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو شاعری کے جتنے بھی ادوار ہیں ، کوئی بھی دور منقبت نگاری سے خالی نہیں گذرا ہے ۔ اردو شاعری کے دورِ اول و دورِ دوم و دورِ سوم میں ملا نصرتیؔ ، ولیؔ دکنی ، سراجؔ اورنگ آبادی ، قلیؔ  قطب شاہ ، شاہ مبارک آبروؔ ، شیخ شرف الدین ، میر شاکر ناجیؔ ، حسین کلیمؔ اور شاہ ظہور الدین حاتمؔ وغیرہم کے نام آتے ہیں ۔ ان قدیم شعرا کے دواوین و کلیات میں حمد و نعت کے ساتھ منقبت کے اشعار تبرکاً دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس کے بعد شعرائے متوسطین کا دور آتا ہے ، جس میں مرزا مظہرِ جانِ جاناں ، خواجہ میر دردؔ ، میر تقی میرؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ میر تقی میرؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ کے کلّیات میں منقبت کے ایک ہزار سے زائد اشعار موجود ہیں ۔ اسی طرح دیوانِ غالبؔ میں دو منقبتی قصیدہ حضرتِ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی شان میں منظوم کیے گئے ہیں ۔ حکیم مومن خان مومنؔ اور بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی منقبتیں لکھی ہیں ۔ منقبت نگاروں میں شادؔ عظیم آبادی ، میر انیسؔ لکھنوی ، مرزا دبیرؔ لکھنوی ، شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ ، سیمابؔ اکبر آبادی وغیرہم کے نام بھی سرِ فہرست ہیں ۔
اردو کے یہ وہ مایۂ ناز شعرا ہیں ، جن کی شاعری پر اردو زبان و ادب کو ناز ہے ۔ لیکن ان میں زیادہ تر شعرا کا تعلق زیادہ تر غزلیات و قصائد یا دیگر اصناف سے رہا ہے اور انہوں نے صنفِ منقبت کو رسماً یا تبرکاً اپنایا ہے ۔ اس مبارک صنف ( منقبت نگاری ) کو کما حقہ عروج و استحکام اور دوام و استمرار اربابِ خانقاہ و اہلِ مدراس سے حاصل ہوا ہے ۔ اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں کچھوچھوی ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی ،  محدث اعظم ہند سیدؔ محمد کچھوچھوی ، حضرت بیدمؔ شاہ وارثی ، منشی امیر علی مینائی ، استاذِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خان بریلوی ، مفتیِ اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان بریلوی ، شاہِ گولڑہ پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی ، تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خان قادری ازہری وغیرہم ۔ ان کے علاوہ منقبت نگار شعرا کی ایک لمبی فہرست ہے ، جس میں اربابِ مدارس ، اہلِ خانقاہ ، عصری دانش گاہوں کے اساتذہ اور یونیورسٹیوں کے پروفیسران شامل ہیں ، جنہوں نے اس فن کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور جہاں تک موجودہ دور کی بات ہے تو اس کو " نعت و منقبت کا دور " کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔ 
زیر مطالعہ کتاب " مناقبِ مخدوم جہاں " جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ کے فضائل و مناقب کا ایک خوب صورت منظوم گلدستہ ہے ، جس میں پچاس سے زائد شعرائے اسلام کی منقبتیں شامل کی گئی ہیں ۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان میں بھی آپ کے مناقب تحریر کیے گئے ہیں ۔ جامعِ شریعت و طریقت حضرت شاہ امین احمد ثباتؔ فردوسی علیہ الرحمہ نے اپنی مایۂ ناز فارسی مثنوی " گلِ فردوس در احوالِ خواجگانِ فردوس " مطبوعہ : منشی نولکشور ، لکھنؤ میں حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ کے احوال و مناقب بڑے والہانہ انداز میں بیان کیے ہیں جو تقریباً دو سو اشعار کو محیط ہیں ۔ محبِ گرامی حضرت مولانا سید شاہ اویس احمد فردوسی مصباحی دام ظلہ العالی نے ان بکھرے مناقب کو یکجا کر کے وابستگانِ سلسلہ اور عوام و خواص کے لیے ایک گلدستۂ عقیدت و محبت سجایا ہے ، جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ " عند ذکر الصالحین تتنزل الرحمۃ " کے مطابق صالحین کے تذکرے ، رحمتِ الہٰی کے نزول کا سبب ہوا کرتے ہیں ۔ بزرگانِ دین کی منقبت خوانی و منقبت نگاری بلا شبہہ رحمتِ الہٰی کے نزول کو مستلزم ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کے قصائد و مناقب سے ہمیں ضرور سروکار رکھنا چاہیے ۔ مرتبِ کتاب جناب سید اویس فردوسی صاحب ایک جواں سال و جواں فکر عالم اور متحرک و فعال شخصیت کے مالک ہیں ۔ درد مند دل رکھنے والے ایک بے لوث داعی و مبلغ اور خادمِ قوم و ملت ہیں ۔ آپ واقعی " فنا فی المخدوم " ہیں ، جو گذشتہ چند سالوں سے حضرت مخدوم جہاں پہ زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامتِ باکرامت رکھے اور حضرت مخدومِ جہاں کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے آمین ۔ 


سگِ درِ مخدوم جہاں 
    طفیل احمد مصباحی
۲۴ / مارچ ۲۰۲۳ ء / یکم رمضان المبارک ۱۴۴۴ ھ ، جمعۃ المبارکۃ

Comments

Popular posts from this blog

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

راضیہ خاتون جمیلؔہ : بِہار کی باکمال صاحبِ دیوان شاعرہ