شیخ المسلمین حضرت سید شاہ حسنین رضا قادری علیہ الرحمہ کیری شریف ،بانکا

*تقریظِ جلیل* 


از قلم : طفیل احمد مصباحی 


مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ 
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی



جامعِ شریعت و طریقت ٬ رئیس الاتقیاء ٬ عارفِ باللہ ٬ امام الکشف حضرت علامہ سید شاہ محمد حسنین رضا قادری رحمانی بھاگل پوری علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۲۱ / رمضان المبارک ۱۴۴۲ ھ / مطابق ۴ / مئی ۲۰۲۱ ء ) کی ہشت پہلو شخصیت کا بھلا کون انکار کر سکتا ہے ۔ آپ کی علمی و روحانی حیثیت مسلم ہے ۔ آپ کا شمار اکیسویں صدی کے باکمال صوفیائے عظام میں ہوتا ہے ۔ علم و حکمت ٬ بصیرت و دانائی ٬ فضل و کمال اور زہد و تقویٰ کے بامِ رفیع پر فائز تھے ۔آپ اپنے وقت کے عالمِ ربّانی ٬ مرشدِ کامل ، علمِ تصوف کے ماہر اور عابدِ شب زندہ دار بزرگ تھے ۔ اشخاص روز جنم لیتے ہیں اور اپنا مقررہ وقت پورا کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ایسے اشخاص خال خال نظر آتے ہیں اور بہت کم وجود میں آتے ہیں ، جن کے سروں پر " عظیم شخصیت " کا تاج سجایا جا سکے اور انہیں صحیح معنوں میں " عظیم المرتبت " کہا جا سکے ۔ علم و عمل ، اخلاص و تقویٰ ، جوہرِ ذاتی ، ایثار و قربانی ، عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل ، یہ وہ اوصاف ہیں جن سے آراستہ ہوئے بغیر کوئی شخص " عظیم شخصیت " نہیں کہلا سکتا ۔ علاوہ ازیں شخصیت کی تعمیر و ترقی میں مقصدیت ، منصوبہ بندی ، شوق و ولولہ ، امید و رجا ، درس و مطالعہ ، خوش اخلاقی ، مسکراہٹ ، سماجی روابط ، باہمی مشورہ ، خدمتِ خلق ، تکریمِ انسانیت ، خوش کلامی و خوش گفتاری ، قوتِ برداشت ، سخاوت و فیاضی ، تحمل و روا داری ، خیر خواہی ، بلند حوصلگی اور احساسِ ذمہ داری جیسے اوصاف اہم رول ادا کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ رب العزت نے حضرت شیخ المسلمین کو بیک وقت ان تمام اوصاف سے مزین فرمایا تھا ۔ وہ ایک عظیم عالم بلکہ عالمِ ربانی تھے ۔ حسنِ اخلاق اور خوبیِ کردار میں اپنی مثال آپ تھے ۔ عشق و وفا کے پیکر اور خلوص و ایثار کے عکسِ جمیل تھے ۔ جوہرِ ذاتی سے مالا مال تھے ۔ علم و عرفان کی دولت وراثت میں پائی تھی ، لیکن کسب و اکتساب نے ذاتی جوہر کو مزید نکھار دیا تھا ۔ خدمتِ خلق ان کی زندگی کی پہچان تھی ۔ منصوبہ بندی ، سماجی و معاشرتی حقوق کی ادائیگی ، خوش کلامی و خندہ روئی ، صبر و تحمل ، تواضع و انکساری اور خیر خواہی و روا داری ان کی تہہ دار شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں ۔ غرض کہ حضرت شیخ المسلمین کی شخصیت جامعِ کمالات اور مجموعۂ محاسن تھی ۔ ایک انسان وہبی و کسبی طور پر صاحبِ فضل و کمال ہو سکتا ہے ، لیکن " جامعِ کمالات شخصیت " کا حامل بننا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ۔ یہ ایک وہبی شے اور خاص عطیۂ الہٰی ہے ٬ جو من جانب اللہ منتخب اور چیدہ افراد کے حصے میں ہی آیا کرتا ہے ۔

حضرت شیخ المسلمین علیہ الرحمہ کو شریعت و طریقت کا مجمع البحرین ، رئیس الاتقیاء اور امام الکشف کہا جاتا ہے اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ، بلکہ حقیقت کی ترجمانی ہے ۔ آپ کی تقویٰ شعار زندگی اور تصوف آشنا حیات اس بات پر شاہد ہیں ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو علم و عرفان اور ولایت و روحانیت کی دولتِ لازوال سے نوازا تھا ۔ سلوک و تصوف آپ کی زندگی کی نمایاں ترین پہچان ہے ۔ آپ کی ایک ایک ادا تصوف کے جلوؤں سے آراستہ اور شریعت و طریقت کی تجلیوں سے مالا مال تھی ۔ آپ تا دمِ شریعت کے اصول و احکام پر سختی سے کار بند رہے ۔ علم ، عمل ، اخلاص ، زہد و ورع ، تقویٰ و طہارت ، صبر و رضا ، جود و سخا ، حلم و حیا ، معرفت و طریقت ، استقامت علیٰ الشریعت ، حسنِ اخلاق ، توکل ، خشیتِ الہیٰ ، عشقِ مصطفائی ، غرض کہ تصوف کے وہ ساری خصوصیات آپ کی ذات میں موجود تھیں ، جن کا ہونا ایک حقیقی صوفی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔ سچ پوچھیے تو سلوک و تصوف کو آپ نے مقامِ اعتبار بخشا ہے اور اپنے قول و عمل سے اس مبارک فن کو عروج و استحکام عطا کیا ہے ۔ فکری و نظریاتی اور علمی و عملی تصوف سے آپ کا بڑا گہرا رشتہ ہے ۔ بالفرض آپ کی ذات میں دیگر اوصاف و محاسن نہ بھی ہوتے تو یہی ایک وصف یعنی سلوک و تصوف سے کامل ہم آہنگی آپ کی شخصیت کی بلندی کے لیے کافی ہوتا ۔

حضرت شیخ المسلمین کی تہہ دار روحانی زندگی اور جامع کمالات شخصیت کا اعتراف صرف عوام اور تلامذہ و مریدین ہی نے نہیں ، بلکہ ان کے معاصرین اور رفقائے درس نے بھی کیا ہے ۔ عربی کی مشہور کہاوت ہے : المعاصرۃ اصل المنافرۃ . معاصرت ( ہم عصر ہونا ) منافرت کی جڑ ہے ۔ ہم عصر اہلِ علم اپنے زمانے کے ہم عمر اصحابِ فضل و کمال کی عظمت کا اعتراف شاید و باید ہی کیا کرتے ہیں ۔ لیکن چاند کو چمکنے اور سورج کو دمکنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ لوگ لا محالہ چاند سورج کی اہمیت و عظمت کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ حضرت شیخ المسلمین اپنے زمانے کا چاند اور علمِ شریعت و طریقت کے دمکتے سورج تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عصر علما و مشائخ نے بھی ان کے فضل و کمال کا اعتراف کشادہ قلبی کے ساتھ کیا ہے ۔ اس حوالے سے تین اقتباس ملاحظہ کریں : 

حضرت شیخ المسلمین کے جلیل القدر ہم عصر عالمِ دین ، رفیقِ درس ، ماہرِ علوم و فنون حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین شمسی علیہ الرحمہ ( تلمیذ حضور شمس العلماء مصنفِ قانون شریعت ) فرماتے ہیں :

بہار میں دو خانقاہیں دیکھیں جو واقعی راہِ شریعت کا داعی و محافظ ہے ۔ ایک کیری شریف اور دوسری گورھو شریف ۔ سید حسنین رضا صاحب قبلہ زمانۂ طالب علمی سے صوفی مجاز رہے ۔ صاف گو ، بیباک ، خدا ترس سلجھے ہوئے ، کشادہ دل ، ملنسار ، متصلب فی الدین اور مخلص فی العمل تھے یعنی کہ آپ سراپا بقیۃ السلف تھے ۔

حضرت مولانا عبد المصطفیٰ حشمتی ردولوی کہتے ہیں : 

پیر طریقت ، حضرت علامہ سید حسنین میاں صاحب قبلہ ( صاحبِ سجادہ آستانہ عالیہ رحمانیہ ، کیری شریف ، بانکا ، بہار ) کے ساتھ کئی سالوں تک دارالعلوم حشمت الرضا ، پیلی بھیت شریف میں فقیر کا سلسلۂ تعلیم جاری رہا ۔ سید صاحب قبلہ کو نیک سیرت ، خوش اخلاق ، اوقاتِ درس کا سخت پابند ، تقویٰ و پرہیز گاری کا خوگر اور ہمیشہ کم سخن پایا ۔ گویا آپ اس شعر کے سچے مصداق تھے ۔ 

بالائے سرش ز ہوشمندی
 می تافت ستارۂ بلندی

صوفیِ با صفا ، مفکرِ اسلام حضرت علامہ عبد المبین نعمانی دام ظلہ العالی ( جن کا شمار اس وقت اہل سنت کے اکابر علما و مشائخ میں ہوتا ہے ) وہ حضرت شیخ المسلمین کی تہہ دار فکر و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : 

حضرت مولانا سید حسنین میاں کے بچپن اور بڑھاپے کو جب ملا کر دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی بزرگانہ زندگی کا پرتو ان کے بچپن پر چھایا ہوا تھا ۔ کیوں کہ وہ عہدِ طفولیت سے ہی بزرگانہ صفات کے حامل تھے ۔کم گوئی کی صفت تو مولانا پر عہد صِبا سے ہی چھائی ہوئی تھی ، جو آخر عمر تک باقی رہی اور اگرکبھی بولتے تو کام کی بات بولتے ، اصلاح کے موتی رولتے ، بزرگوں کی باتیں کرتے ........ عالمِ با عمل اور پیرانِ با صفا بہت کم ملتے ہیں ۔ انھیں کم ملنے والوں میں صوفیِ با صفا ، عالمِ با عمل ، پیکرِ زہد و تقویٰ حضرت مولانا سید حسنین رضا قادری بھی تھے ۔ ان کے جیسا پیر اور ان کے جیسا عالم اب مشکل سے ملے گا ۔ ان کی خوبیوں میں ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ نماز کے سخت پابند تھے ۔ حتیٰ کہ جماعت کے بھی ۔ اذان سنتے ہی مسجد یا نماز گاہ میں حاضر ہو جاتے ۔ وضو پہلے سے تیار رہتا ۔ شاید ہمیشہ با وضو ہی رہتے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں شب بیداری کا خمار بھی دیکھنے کو ملتا تھا ۔ چہرہ کشادہ بارونق ایسا کہ گویا رنگ و نور کا غازہ مل دیا گیا ہو ۔ آنکھیں دبی جھکی لیکن جب نگاہ اٹھا کر دیکھتے تو جاہ و جلال ٹپکتا ۔ حاضرین پر ہیبت و وقار چھا جاتا اور کبھی دل کی دنیا بدل جاتی ......... افسوس کہ آپ کے جانے سے اس عہد کی ایک سرپرست شخصیت چلی گئی ، ایک باوقار عالم روپوش ہو گیا ، زہد و تقویٰ کا آفتاب گہنا گیا ، طریقت کی بساط الٹ گئی ، ولایت کی شان چلی گئی اور خانقاہ کا وقار ماند پڑ گیا ۔


عظیم شخصیت کی باتیں بھی عظیم اور فکر و دانائی سے لبریز ہوا کرتی ہیں ۔ حضرت شیخ المسلمین نے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات عبادت و ریاضت ٬ دعوت و تبلیغ ٬ رشد و ہدایت ٬ خدمتِ خلق اور تصنیف و تالیف میں گزارے اور مختلف دینی و اصلاحی موضوعات پر ایک درجن کتابیں لکھ کر اصلاحِ معاشرہ کا مہتم بالشان فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا ۔ پیکرِ علم و اخلاص ٬ محبِ گرامی حضرت مولانا محمد عسجد رضا قادری مصباحی دام ظلہ العالی قابلِ مبارک باد ہیں ٬ جنہوں نے زیرِ نظر مفید اور معلومات افزا رسالہ " حضرت شیخ المسلمین کی سنہری باتیں " ترتیب دے کر نہ صرف یہ کہ حضرت شیخ المسلمین کے علمی و روحانی افکار و نظریات کو عام کیا ٬ بلکہ اصلاحِ معاشرہ کا کام بھی سر انجام دیا ۔ راقم الحروف اکثر یہ باتیں کہا کرتا ہے اور آج بھی اس کا اعادہ کرتا ہے کہ آج ہماری قوم کو بزرگانِ دین کی کرامات سنانے سے زیادہ ان کی تعلیمات بتانے کی ضرورت ہے ۔ مولانا عسجد رضا مصباحی کو میں زمانۂ طالب علمی سے جانتا ہوں ۔ وہ خوب صورت کے ساتھ نیک سیرت ٬ حسنِ اخلاق کے پیکر ٬ خوش لباس اور صوفیانہ وضع کے حامل ہیں ۔ کم گوئی کے ساتھ بسیار جوئی ان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ بڑی اچھی اور اصلاحی تقریر کیا کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضرت شیخ المسلمین کے تلمیذِ رشید اور ان کے محبوب اور منظورِ نظر ہیں ۔ اس وقت گڈّا ٬ جھارکھنڈ میں امامت و خطابت کے منصب پر فائز ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور فروغِ دین و دانش میں مشغول و منہک ہیں ۔ اللہ رب العزت ان کو صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے اور زیادہ سے زیادہ دینی و علمی خدمات انجام دینے کی توفیق ارزاں فرمائے ۔ آمین !

Comments

Popular posts from this blog

سیّد نور الحسن نورؔ فتح پوری کی نعتیہ شاعری

رباعیاتِ شوقؔ نیموی ، ایک تعارفی جائزہ